قانون کی بالادستی تحریر: احسان الحق

0
91

قانون کی بالادستی اسلام کے اہم ترین اجزاء میں سے ایک ہے اور کسی بھی معاشرے کی بہترین تعمیر اور نشوونما کے لئے لازمی جزو ہے. حیات نبویؐ، خلافت راشدہ اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو قانون کی بالادستی کی سینکڑوں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قانون کی بالادستی کس قدر اہم ہے اور عدل و انصاف کا نظام قانون کے مطابق ہونا کتنا لازم ہے. ابتدائے اسلام اور قرون اولیٰ میں ایسے لاتعداد واقعات احادیث اور تفاسیر میں موجود ہیں کہ قانون کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے ایسے مثالی اور تاریخی فیصلے سنائے گئے جو خلیفہ وقت حتیٰ کہ اس وقت کے موجودہ امیرالمؤمنین کے بھی خلاف تھے.

قانون کی بالادستی کو سمجھنے کے لئے امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کا واقعہ دیکھ لیں جب ایک یہودی کے مقابلے میں قاضی شریح نے قانون کی بالادستی کے لئے آپ امیرالمؤمنین کے خلاف اور یہودی کے حق میں فیصلہ سنایا. ایک دفعہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی زرہ گم ہو گئی اور کچھ دنوں بعد آپ نے وہی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی. آپ نے اس یہودی سے فرمایا کہ یہ زرہ تو میری ہے، فلاں دن فلاں جگہ پر گم ہو گئی تھی. یہودی نے جواب دیا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، یہ زرہ میری ہے اور اس وقت میرے قبضے میں ہے. اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ہمارے درمیان آپکا مسلمان قاضی فیصلہ سنائے گا.

ابو امیہ شریح بن حارث بن قیس بن جہم الکندی ابتدائی اسلام کے نامور فقیہ قاضیوں میں سے ایک ہیں، آپکا تعلق یمن سے تھا. حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانہ خلافت میں قاضی القضاء کے عہدے پر فائز رہے. آپ نے طویل عمر پائی اور 108 سال کی عمر میں 87 ہجری کو کوفہ میں داغ مفارقت دے گئے.

اس وقت کے خلیفہ، امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ اور یہودی قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے، قاضی شریح امیرالمؤمنین کو دیکھ کر اپنی نشست یا محفل سے اٹھ کھڑے ہوئے مگر امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ آپ بیٹھے رہیں.

امیرالمؤمنین نے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میری زرہ گم ہو گئی تھی اور آج میں نے یہی زرہ اس (یہودی) کے پاس دیکھی ہے.

قاضی شریح نے یہودی سے پوچھا کہ تمہیں کچھ کہنا ہے؟

یہودی نے کہا کہ یہ زرہ میری ہے اور میرے قبضے میں ہے.

قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور فرمانے لگے، "والله، اے امیرالمؤمنین! یہ زرہ واقعی ہی آپ کی ہے اور آپ سچے ہیں مگر قانون کے مطابق آپ کو گواہ پیش کرنے ہونگے”

امیرالمؤمنین نے گواہ کے طور پر اپنے غلام قنبر کو پیش کیا، غلام نے آپ امیرالمؤمنین کے حق میں گواہی دی. پھر آپ نے اپنے صاحبزادوں حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو پیش کیا، ان دونوں نے بھی امیرالمؤمنین کے حق میں گواہی دی. قاضی شریح نے فرمایا کہ،

"اے امیرالمؤمنین آپ کے غلام کی گواہی قبول کرتا ہوں مگر آپ مزید ایک گواہ کا بندوبست کریں. آپ کے دونوں صاحبزادوں کی گواہی قبول نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ آپ کے بیٹے ہیں”

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ،

"اللہ کی قسم! میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کو رسولﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ

"حسن اور حسین نوجوانان اہل جنت کے سردار ہیں”

قاضی شریح کہتے ہیں کہ والله یہ سچ ہے. مگر قانون کے مطابق آپ کے بیٹوں کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی. یہ کہتے ہوئے قاضی شریح نے یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کر دی.

مسلمانوں کے قاضی کا مسلمانوں کے خلیفہ کے خلاف فیصلہ سن کر اور خلیفہ کا اپنے خلاف فیصلہ سن کر فیصلے کو بغیر کسی چوں و چراں کے تسلیم کرنا دیکھتے ہوئے یہودی حیران رہ گیا. یہودی نے امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی طرف اپنی نظر اٹھائی اور کہا امیرالمؤمنین آپکا دعویٰ سچا ہے، یہ زرہ یقیناً آپ ہی کی ہے. فلاں دن یہ زرہ آپ سے گر گئی تھی اور میں نے اٹھا لی تھی. اپنی ملکیت واپس لیں. یہودی نے کلمہ شہادت پڑھا:

"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسولﷺ اللہ کے رسول ہیں”

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں، "اب میری زرہ بھی تمہاری ہے اور یہ میرا گھوڑا بھی تمہارا ہے”

(حلیتہ الاولیاء لابن الجوزی، کنزالعمال 17790)

قانون کی بالادستی ہی کسی قوم اور ملک کی ترقی کی ضامن ہے. امیر غریب، طاقتور اور کمزور سب کے لئے یکساں قانون ہونا چاہئے اور فوری انصاف مہیا کرنا ہی معاشرے کی بہتری اور ترقی کی ضمانت ہے.  قانون کی بالادستی سے امن وامان، مساوات، جزاء و سزا اور عدل کے معاملات آسان اور احسن طریقے سے چلائے جا سکتے ہیں. آج ملک عزیز جتنے بھی معمولی اور غیرمعمولی مسائل کا شکار ہے ان سب کی ایک ہی وجہ ہے کہ قانون کی بالادستی نہیں ہے. پاکستان میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ اور طاقت ور اور کمزور کے لئے علیحدہ علیحدہ قانون موجود ہے. اگر کوئی غریب اور کمزور گناہ کرتا ہے تو اسکو سزا دی جاتی ہے یا بعض اوقات غریب اور کمزور کو قانونی سزا سے بھی زیادہ سزا دی جاتی ہے. اگر کوئی طاقت ور، سردار یا کوئی حکومتی نمائندہ غلطی کرے تو اس کے خلاف قانون یا تو مکمل طور پر خاموش رہتا ہے یا اسکو بچانے کے لئے قانون خود قانونی راستہ نکال لیتا ہے اور اس مجرم کو سزا سے نکال لیا جاتا ہے.

آج ہی دادو کی عدالت نے ام رباب کے دادا، والد اور چچا کے قاتلوں کو مجرم مانتے ہوئے انہیں قصوروار ٹھہرایا. کمزور اور ناتواں ام رباب کے لئے 3 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد پہلی کامیابی ہے کہ عدالت نے ملزمان کو قاتل تسلیم کیا. قاتلوں کی طاقت اور ان کے اثرورسوخ کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ قاتل سیاسی پارٹی کے سرکردہ شخصیات اور سندھ اسمبلی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے کے سردار بھی ہیں. سیاسی جماعت کی پشت پناہی، صوبائی اسمبلی کی رکنیت اور اوپر سے سرداری، یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے قاتلوں کو قاتل تسلیم کرنے میں عدالت نے 3 سال کا عرصہ لگا دیا حالانکہ یہ واقعہ ایسا سیدھا سادھا اور آسان تھا کہ 3 ہفتوں میں سزا سنا دینی چاہیے تھی.

بہرکیف ہمارا عدالتوں اور اداروں کی بابت اچھا گمان ہے کہ ام رباب اور ام رباب جیسے ہزاروں کمزور اور ناتواں مظلوم خاندانوں کے قاتلوں اور مجرموں کو قانون کے مطابق سزا ملے گی اور مکمل سزا ملے گی. پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم ہوگی اور مجرمین اور ظالمین کو قانون کے عین مطابق سزا ملے گی اور میرا عقیدہ ہے کہ سخت سزاوٴں کے ذریعے ہم ملک کو سنگین برائیوں سے پاک کر سکتے ہیں.

@mian_ihsaan

Leave a reply