مہنگائی کا طوفان تحریر.ہارون خان جدون

0
34

گزشتہ رات ڈالر کی اڑان سب کی نیندیں اڑا کر لے گئی ہے جس کے سبب پٹرولیم مصنوعات ، اشیائے خوردونوش کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے دور ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں مزدور بندہ تو پہلے ہی بہت مشکل سے اپنی زندگی گزار رہا ہے اب اوپر سے مزید پٹرول مہنگا ہو جانے سے عام بندے کی زندگی پر بہت اثر پڑے گا

واقعی حقیقی معنوں میں تو ڈالر کو فریز کر دیا جاتا ہے اور جس کے سبب خاص طور پر ایشیائی ممالک کی معیشت بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہےپاکستان جو کہ پہلے ہی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے س کی معیشت مزید گرتی ہے اور بدلے میں مہنگائی کا طوفان لے کر آتی ہے۔ پرائس کنٹرول والوں کی اپنی ریٹ لسٹ ہے جبکہ بازار میں فروخت کنندگان کی اپنی لسٹ۔ کچھ تو ان بھائی لوگوں نے بھی مصنوعی مہنگائی کی ہوئی ہوتی ہے جس کا خمیازہ عوام بھگتتی ہے۔ اگر کوئی آگے سے احتیاطاً پوچھ بھی لے کہ اتنی مہنگی چیز کیسے؟ تو جواب سننے کی بجائے وہ اپنے سوال پہ پچھتاتا ہے

صوبائی اور وفاقی سطح کی پالیسی عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے وہ نہیں جانتا کہ ایکسچینج ریٹ کیا ہے ؟ کرنسی کی ویلیو بڑھی یا گھٹی ؟ افراط زر یا تفریط زر کا مقصد کیا ہے ؟ ڈیولپمنٹ ہو رہی ہے کہ نہیں ؟ ہم گرے لسٹ میں ہیں یا بلیک لسٹ میں؟ نیشنل انکم یا جی ڈی پی کہاں پہ رکے گی؟ وغیرہ وغیرہ اور عام آدمی سمجھنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اسے بس اپنا گھر چلانا ہے۔ وہ ووٹ اسی لیے تو دیتا ہے کہ مجھ سے بہتر لوگ ملک چلائیں۔ 

اب ہم ملک تو نہیں چلا سکتے کم از کم اپنی اخلاقی اقدار تو بہتر بنا سکتے ہیں تا کہ ایک عام آدمی کی زندگی سہل ہو سکے اب جیسا کہ آج کل مارکیٹ میں شخصیت کو دیکھ کر چیز بیچی جاتی ہے اگر تو تھوڑا پڑھا لکھا ہے مارکیٹ کے اصول و ضوابط جانتا ہے اسے چیز مناسب نرخ پہ بتائی جا تی ہے اگر کوئی بیچارہ سادہ لوح شخص پہلے تو خریداری کی سکت نہیں رکھتا اور اگر بچوں کی خاطر چلا بھی جائے تو اسے مہنگے داموں پہ چیز دی جاتی ہے یا پھر غیر معیاری چیز پکڑا دی جاتی ہے۔ جیسا کہ میڈیکل اسٹور پہ ملٹی نیشنل دوائی کی بجائے کٹ ریٹ والی دوائی تھما دی جاتی ہے۔ 

دوسری طرف ہماری یہ بھی اخلاقی کمزوری بن چکی ہے کہ جس چیز کا ریٹ موجود نہیں اس میں بے تحاشہ منافع شامل کر لیا جاتا ہے۔ کپڑے کو دیکھیں تو 50 یا 100 کے ہندسے میں ملے گا یعنی یا تو 300 روپے میٹر یا پھر 350 روپے بیچ والی گنتی جیسے بھول گئی ہو, اسیطرح جوتے والے یا پھر جنرل اسٹور اور کراکری والے بھی من مرضی کے ریٹ لگاتے ہیں اور آگے سے پوچھتے ہیں کہ آپ کتنے دیں گے؟ فرنیچر والے اور دیگر اشیائے ضرورت والے تو مت پوچھیں دکان میں پاؤں رکھا نہیں کہ اسی طرح واپس آنے کو دل کرتا ہے۔ 

میری تمام تاجران سے اور حکومتی عہدیداروں سے اپیل ہے کہ مہنگائی کے طوفان میں اور کچھ نہ سہی تو غریب عوام کی اس طرح بھی مدد ہو سکتی ہے ایک تو ہر چیز کا ریٹ لگا ہو ، جو کہ منظور شدہ ہو ، اور مصنوعی مہنگائی کے خاتمے کو یقینی بنائیں تاکہ عام آدمی کو کسی جگہ تو ریلیف ملے.

@ItzJadoon 

Leave a reply