سیاست کی دنیا میں آج کا دوست کل کے لئے دشمن بن جاتے ہیں۔

ہر ریاست قومی مفادات پر ترجیح اور دوستی رکھتی ہے۔

اور اس کے محل وقوع کے نظر سے بھی بین الاقوامی تعلقات اور نظریات کے لحاظ سے بھی لین دین اور تجارت وغیرہ کرتے ہیں۔

طالبان نے بھی چائنا کے ساتھ دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا اور وہ اس لئے طالبان بھی یہ جان چکے ہیں اگر دنیا کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تو خطے کے اہم ممالک کے ساتھ روابط اور تجارت کرنا ضروری ہوتا ہے۔

چائنا بھی آج کل اقتصادی سطح پر سپر پاور ابھر ہے۔

دوسری طرف چائنا نے بھی طالبان کے ساتھ سی پیک کو سنٹرل ایشیاء تک لانا ہے اور اپنے اشیاء کو دنیا تک رسائی کا عزم رکھا ہے۔کیونکہ آج کل جنگ اقتصادی جنگ شروع ہو چکا ہے۔

چائنا بھی چاہتا ہے کہ بھارت امریکا اور اس کے اتحادیوں کو معاشیات کی نظر میں شکست دے۔

روس بھی اس بار طالبان کے نئی حکومت کو تسلیم کرے گا کیونکہ روس بھی نہیں چاہتا کہ امریکہ دنیا پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے رہے۔

وسطی ایشیا ریاستیں 1991 تک سوویت یونین کے ماتحت رہے۔

سنٹرل ایشیا ممالک کے ساتھ روس اور طالبان دونوں چاہتے ہیں کہ طالبان حکومت کے ساتھ نئی دوستی شروع کرے اور اپنے تجارت وغیرہ آگے بڑھائیں۔

کابل فتح سے پہلے روس کی پشت پناہی مدد کرتے تھے تاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے اپنا بدلہ لے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ اوپر اور نیچے ہوتے ارہے ہے 

لیکن اس بار پاکستان طالبان حکومت کے ساتھ بھائی چارہ کی طرح آگے بڑھاے گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان دونوں ریاستوں کے درمیان آمدورفت بہت زیادہ ہیں۔

چمن بارڈر اور طورخم بارڈر پر روزانہ ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں۔اور ساتھ ساتھ تجارت بھی بہت زیادہ ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان اگست 1965 میں اپنا تجارتی معاہدہ بھی ہوا تھا۔

اور دونوں کی محل وقوع ایشیا میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دونوں ریاستیں ایک کے بنا رہنے میں ناممکن ہے۔

کیونکہ دونوں ریاستیں شادیاں وغیرہ بھی کی ہے۔

لہذا پاکستان طالبان کی حمایت ضرور کریں گے۔

ترکی بھی ایک اسلامی ملک ہے۔

ترکی بھی خواہشات رکھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔

ترکی نے انخلا میں اہم رول ادا کیا ہے اور ساتھ ساتھ اپنا سفارت خانہ بھی کھولا رکھا اور ترکی کے افواج انخلا میں کابل ائرپورٹ پر بھی ڈیوٹی سرانجام دی۔

ترکی چاہتا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ کام کرے۔

سنٹرل ایشیا کے بنا افغانستان اور وسطی ایشیا ممالک ادھورا ہے۔

وہ اس لئے افغانستان اور ازبکستان کے درمیان بارڈر ہے۔

آگے یہ سنٹرل ایشیا ریاستیں کی محل وقوع جڑے ہوئے ہیں۔

افغانستان بھی چاہتا ہے کہ وسطی ایشیا ممالک کے ساتھ تجارت کرے کیونکہ زندگی گزارنے کے لئے گیس۔صحت تعلیم ہسپتال اور روڈ وغیرہ بنانا ضروری ہے۔

ایک ریاست دوسرے ریاست کے ساتھ ( MOU ) ہونا ضروری ہے۔

چائنا۔اور پاکستان چاہتے ہیں کہ وسطی ایشیا ریاستوں کے ساتھ سی پیک cpec پہنچ جائے افغانستان کے ذریعے۔

لہذا چائنا پاکستان ترکی روس وغیرہ سب ممالک افغانستان کے نئے طالبان حکومت کے ساتھ روابط جاری رکھے گا لیکن ہر ریاست قومی مفادات اور وقت کے ساتھ طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے ان شاء اللہ

Twitter Handle @waheedkhan59

Shares: