کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے شاعر رشید حسرت کا شعر ہے کہ
؎ خدا کا خوف نہیں وائرس کا تھا خدشہ
جسے بھی موقع ملا ہے وہ چین چھوڑ گیا
مندرجہ بالا شعر میں وائرس پر نظر ٹک جاتی ہے۔وائرس کا لفظ لاطینی زبان سے انگریزی زبان میں پھر ادھر سے دیگر الفاظ کی طرح غیرمحسوس انداز سے اردو میں داخل ہوا۔ لاطینی زبان میں بھی یہ لفظ یونانی زبان سے آیا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ یونانی لفظ ”یوس“کی تبدیل شدہ شکل وائرس ہے۔لاطینی زبان کے لفظ ”Virus“کا ماخذ ”Weis“ہے۔ لاطینی زبان کے لفظ Virulentusکو پہلی بار انگریزی میں 1398ء کے قریب Virusمیں ترجمہ کرکے استعمال کیا اور پھر 1798ء میں ان ذرائع کا نام وائرس رکھ دیا گیا جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔سائنسی نقطہ نظر سے بات کروں تو 1880ء میں اسے استعمال کیا گیا اور کمپیوٹر کی دنیا میں یہ لفظ 1972ء میں داخل ہوا۔ گھریلوانسائیکلوپیڈیا میں وائرس کے متعلق لکھا ہے ”متعدی امراض کا سبب بننے والا زہر یا جراثیم سے بھی نہایت چھوٹا کوئی عنصر جو عام خوردبین سے نظر نہیں آتا“وائرس کو ہم زہریلا مادہ، متعدی امراض کا زہراور بَس وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ایک اور کتاب ”اپنے لوگ“ میں وائرس کے متعلق لکھا ہے ”اب کوئی فائدہ نہیں، محبت کا وائرس فاصلوں کی پروا نہیں کرتا“۔ خالد مبین کہتے ہیں
؎ محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
ہمارے درمیاں یہ فاصلے کیسے نکل آے

سنسکرت میں یہ لفظ ”وش“ کی شکل میں دیکھ کر گمان گزرا کہ یہ لفظ ہو نہ ہو ادھر سے ہی اُدھر تک پہنچا ہو۔ پھر جب اس متعلق چیمبرز ڈکشنری کا ایک حوالہ ملا تو گمان کو یقین کی قوت میسر آئی۔ یاد رہے کہ یہ انگریزی کا Wishنہیں ہے بلکہ سنسکرت کا ”وش“ ہے جس سے وش کنیا کی طرف دھیان جاسکتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسی حسینہ جسے زہر پلاکر تیار کیا گیا ہو اور قدیم روایات کے مطابق اس سے لوگوں کو مروایا جاتا ہے۔ وِش ناشک لفظ پہلی بارمیری نظروں سے گزرا ہے جب اسے لغت میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد تریاق ہوتاہے۔آگ کا دریا کتاب میں لکھا ہے”آہا پنڈت جی کٹوٹا کا وش ناشک میرے پاس بھی نہیں، کمال نے ہنس کر جواب دیا“۔ وش اگرچہ اردو میں بھی مستعمل رہا ہے لیکن اس کا ایک مترادف لفظ بِس بھی اردو میں پڑھا اور لکھا جاتا ہے جسے ہم دیوان حالی میں دیکھ سکتے ہیں۔
؎ کی نصیحت بری طرح ناصح
اوراک بِس ملادیابِس میں
اگر وِش کو وَش کردیا جاے تو فارسی کا لفظ بن جاے گا جس کا مطلب ہو مانند، نظیر اور خوب، وَش کے متعلق امجد اسلام امجد صاحب نے کیا خوب کہا ہے
؎ ہو چمن کے پھولوں کا یاکسی پری وش کا
حسن کے سنورنے میں کچھ دیر تو لگتی ہے
اب دوبارہ سے لفظ وائرس پر چلیے۔ اس سے مراد شروع میں زہر تھا جو بعد میں مہلک کے معنوں میں بھی آگیا۔ انگریزی زبان میں سیاسی جھگڑوں کو بیان کرنے کے لیے Virulent اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ وائرس پر کیا کچھ بیتا اور اس پر کیسے کیسے تجربات ہوے اور کس قدر درجہ بندیاں ہوئیں اور کیسے یہ لفظ سائنس کا حصہ بن گیا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس تک پہنچنا میرے لیے قدرے مشکل کام ہے۔ سرفراز شاہد کیا خوب کہتے ہیں کہ
؎ہے مبتلاے عشق بتاں میرا ڈاکٹر
جو مجھ میں وائرس ہے وہی چارہ گر میں ہے

Shares: