روشنیوں کے شہر کی روشنیاں مدھم ہونے لگیں!! تحریر: کائنات فاروق

0
46

یوں تو سمندر کنارے بسنے والے اس شہر نے اپنے اندر سمندر سا وسط رکھا ہے، ہر کسی کو اپنے سحر میں جکڑ لینے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر سمو لینے کی ادا بھی یہ شہر خوب جانتا ہے۔

کراچی کے بارے میں اگر لکھنے بیٹھوں تو شاید الفاظ کی قید ختم ہوجائے مگر بات مکمل نہ ہو، اسلیے موضوع کی طرف آگے بڑھنا چاہوں گی۔ کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جس نے نہ صرف پاکستان کو معاشی طور پر سنبھالنے کا ذمّہ اٹھا رکھا ہے بلکہ اس شہر نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کئی نایاب ستارے بھی جنم دیے ہیں جنھوں نے نہ صرف ملک بھر میں اپنی قابلیت کو منوایا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا نام اور پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔

کراچی سے ملک کی کئی نامور شخصیات کا تعلق رہا ہے جنهوں نے اعلیٰ اداروں میں اپنی خدمات انجام دیں جن میں دفاعی ادارے، سیاست، بیوروکریسی، عدلیہ، ادب و مذہب سے اور سائنس و ٹیکنالوجی جیسے شعبے شامل ہیں۔ ایسے بےشمار لوگ موجود ہیں جنھوں نے تقریباً تمام شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر رہ کر اپنا لوہا منوایا ہے۔ لیکن آج کے مضمون کے اندر میں چند ایسی شخصیات کا ذکر کرنا چاہوں گی جنکی عظمت پر کسی قسم کا کوئی حرف نہیں۔

عبدالستار ایدھی، علامہ طالب جوہری، علامہ ضمیر اختر، معین اختر، سکندر صنم، امجد صابری، اور اب عمر شریف جیسے لیجینڈز کی وفات ہمیں خوفزدہ کر رہی ہے کہ ان عظیم ستاروں کی جگہ کبھی پر ہو بھی پائے گی یا نہیں!

پاکستان کے اس شہر نے ویسے تو بدترین سے بدترین ادوار بھی گزارے ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں ایسے قیمتی اثاثوں کے دور ہوجانے کا جو نقصان صرف کراچی نہیں بلکہ پورے ملک کا ہورہا ہے اس کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہے۔

اب واقعی لگنے لگا ہے کہ "روشنیوں کے اس شہر کراچی کی روشنیاں مدھم ہونے لگی ہیں۔”

پوری دنیا میں انسانیت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے عبدالستار ایدھی کو دنیا سے رخصت ہوئے یوں تو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن وہ خلا جو ایدھی صاحب چھوڑ گئے وہ آج تک پر نہ ہوسکا، اور بھلا ہو بھی کیسے سکتا ہے ایسے عظیم لوگ روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے۔

عبدالستار ایدھی وہ شخصیت تھے جنھوں نے ہجرت کے بعد روزگار کے لیے کراچی کی کپڑا مارکیٹ میں ٹھیلا لگایا مگر ایک واقعے نے ان کی زندگی بدل دی۔روزگار کے لیئے کراچی کی کپڑا مارکیٹ میں پان بیڑی کا ٹھیلا لگانا شروع کیا انہی دنوں میں عبدالستار ایدھی کے سامنے ایک شخص چاقو کے حملے میں زخمی ہوگیا ۔کچھ دیر تک اسے کسی نے نہ اٹھایا تو انہوں نے اپنا ٹھیلا وہیں چھوڑ کرزخمی شخص کو ابتدائی طبی امداد دے کر اسپتال منتقل کیا۔ اسی واقعے نے نہ صرف ایدھی صاحب بلکہ لاکھوں لوگوں کی تقدیر بدل دی۔

یہ شہر کراچی معین اختر، امجد صابری، ایدھی صاحب جیسے لوگوں کو گنوانے کے دکھ سے خود کو سنبھال پاتا کہ اسے مزید حادثات کا سامنا کرنا مستقل ہی کرنا پڑ رہا ہے، کبھی علی رضا عابدی کبھی علامہ طالب جوہری تو کبھی عمر شریف کی صورت میں۔

حال ہی میں پاکستان کے معروف اور عالمی شہرت یافتہ کامیڈین عمر شریف بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں، اُن کی وفات نے پوری قوم کو سوگوار کردیا ہے، پچھلے کچھ دنوں سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طبیعت کی ناسازی کی خبر بھی موصول ہورہی ہے، خدا اُن جیسے عظیم قومی ہیروز کا سایہ اس قوم پر تادیر برقرار رکھے، یقیناً ایسے لوگوں کا بچھڑ جانا کسی قومی سانحہ سے کم نہیں ہوتا، حال ہی میں رخصت ہونے والے معروف کامیڈین عمر شریف کا شمار اُن ستاروں میں ہوتا ہے جن کے جانے سے لگتا ہے کہ اس شہر کی روشنیاں جارہی ہیں اور اس نقصان کا ازالہ کبھی ممکن نہ ہوسکے گا!

شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے؛

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

@KainatFarooq_

Leave a reply