منشيات ذہرِ قاتل  تحریر: شھریار سیالوی 

0
181

اللہ تعالی کی ذات نے جب انسان کو تخلیق کیا تو اسکو دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر رتبہ عنایت فرمایا اور "اشرف المخلوقات” کا درجہ بخشا۔ اس طرح انسان دنیا میں تمام مخلوقات میں ممتاز ہوگیا۔ اللہ تعالی کے انعامات میں سے ایک انعام "عقل” ہے جوکہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس عقل کے بدولت ہی انسان اچھے برے، صحیح درست میں تمیز کرسکتا ہے اور اسی عقل کی بدولت اللہ کی ذات نے انسان کو دنیا کی خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ہمارے دین اسلام اور شریعت میں تمام احکام خداوندی کے پانچ بنیادی مقاصد ہیں جوکہ نسل کی حفاظت، مال کی حفاظت، دین کی حفاظت اور جان کی حفاظت ہیں اور عقل کی حفاظت کرنا اور اسے ہر قسم کے نقصان سے بچانا دین اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے اور اس پر پردہ کون سی چیز سے پڑتا ہے وہ نشہ ہے۔

اسلامی شریعت نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اور جو چیزیں انسان کے جسم اور عقل کو نقصان پہنچانے والی ہیں ان میں سے ایک ہے۔ عربی میں نشہ اور نشہ آور چیز کیلئے "مُسْکِر” اور "خمر” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلم شریف کے حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ (کل مسکر خمر وکل مسکر حرام) "ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔”

حضرت عمرفاروق ؓ نے نشہ اور خمر کی حقیقت کچھ یوں بیان کی ہے کہ (الخمر ماخامرالعقل) "خمر (نشہ) وہ چیز ہے کہ جو عقل کوڈھانپ لے”۔

اب مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شریعت مطہرہ نے ہر وہ نشہ آور چیز اور منشیات حرام قرار دے دیا ہے جو انسانی اعصاب اور عقل پر پردہ ڈالے اور انسان اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور مختلف قسم کے مہلک جسمانی اور روحانی بیماریو میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی نشہ آور چیز کو نجس اور قابل نفرت شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور اس سے اجتناب کرنے کا سختی سے حکم دیا گیا ہے۔ ہر قسم کا نشہ اور منشیات کا استعمال ہمارے دین میں حرام ہے اور معاشرے کیلئے ناسور اور زہر قاتل بھی ہے۔ کیونکہ انسان کا سب سے اصل جوہر اس کا اخلاق وکردار ہے ، نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کرکے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا مرتکب بنادیتی ہے۔

نشہ خواہ چھوٹا ہوں یا بڑا ، کم ہو یا زیادہ سب ہی مذموم ہے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں جو لوگ اور نوجوان شروع سے معمولی نشے نسوار، سیگریٹ وغیرہ کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو یہاں سے اس کی تباہی وبربادی کا سامان شروع ہوجاتا ہے۔ حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ نشہ کی عادت بھی اسی طرح ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور پھر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، یہان تک کہ پھر زہر آمیز انجکشن کے بغیر تسکین نہیں ملتا۔ اور آج کل نوجوانوں میں مقبول نشہ "آئس” ہے۔

ماہرین کے مطابق "آئس” نشہ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے کوئی منشیات لگتا بھی نہیں اور اس میں کوکین، چرس، ہیرون کی طرح کوئی بدبو بھی نہیں ہوتی، اس کی کرسٹل شکل اور بے بو خاصیت نے اس نشے کو دنیا بھر میں مقبولیت بخشی خاص طور پر طلبہ وطالبات اور نوجوان ہنرمند طبقہ اس کی لپیٹ میں آگیا، یہاں تک کے اب دفتروں بازاروں، دوستوں کی محفلوں سے نکل کر یہ نشہ اسکول کالجز اور یونیوسٹیوں تک پہنچ کر لاکھوں طلبہ و طالبات کو اپنا غلام بنا چکا ہے۔

سب سے پہلا نقصان نشئی کی اپنے صحت کا ہے۔ ڈاکٹرز فرماتے ہیں کہ منشیات ایک ست رفتار زہر ہے اور آہستہ آہستہ انسان کے جسم کو کھوکھلا کرکے عمر کو گھٹاتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے آپ کی جسم اللہ کی طرف سے آپکے پاس امانت ہے اب اس کا خیال نہ رکھنا اور اس طرح ضائع کرنا امانت میں خیانت کا مرتکب ہونا ہے اور اس کا حساب دینا ہوگا۔ دوسرا نقصان مالی ہے۔ جتنے بھی منشیات ہیں وہ مالی لحاظ سے کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ اب منشیات کے عادی افراد اس کا استعمال تو اپنے اختیار سے شروع کر دیتے ہے مگر جب اس لت کے عادی بن جاتے ہیں تو اس مہنگے منشیات کو خریدنے کیلئے اپنے سارے مال کو داؤ پر لگادیتے ہیں، خواہ گھر میں روٹی میسر نہ ہوں، اھل وعیال بھوکے ہوں، علاج کیلئے پیسے میسر نہ ہوں مگر لازمی اپنے اس خوئے بد کو سب سے پہلے پورے کریں گے۔ تو یہ نشہ بندے کے مال، جائیداد اور تمام مالیات کو کوڑی داموں کھا جاتا ہے۔ نشے کا تیسرا نقصان سماجی پہلو کے حوالے سے ہے۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے، اور اسکے ساتھ مختلف لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔ ایک آدمی باپ ہے تو اس پر بچوں کے حقوق و ذمہ داریاں عائد ہے۔ اگر بیٹا ہے تو والدین کی خدمت و حقوق کی پاسداری اس پر ہوتی ہے۔ اگر شوہر ہے تو بیوی بچوں کے حقوق و ذمہ داریاں اس سے متعلق ہیں۔ اور اگر بھائی ہے تو بہنوں کی پرورش و شادی بیاہ کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہے۔ اب نشئی آدمی اس نشہ کے لت کی وجہ سے ان کے تمام اقسام کے حقوق و ذمہ داریوں سے بے خبر ہر وقت اپنے اس غلیظ پیاس بجھانے کے چکر میں رہتا ہے۔ اپنی زندگی بھی تباہ وبرباد کر دیتا ہے اور اپنے خاندان والوں کو بھی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

حضرت محمد ﷺ نے معاشرے میں نشہ آور چیزوں سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو روکنے کے لئے اس کااستعمال کرنے والے پر حد مقرر کی ،دین اسلام کی تعلیمات میں معاشرے سے منشیات کاقلع قمع کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے، اسلام نے اس کو ہر لحاظ سے ممنوع قرار دیا،اسکو” ام الخبائث ” ـ کا نام دیا اسلام نے اسے تمام جرائم کی ماں کا نام دے کر اس کے جملہ پوشیدہ عیوب و نقائص بیان کردیے، اسلام نے ہر اس چیز کو جو کسی بھی صورت میں نشہ کا سبب بنتی ہواس پر حرام کی مہر لگا کر اس کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا ،اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ”اے ایمان والو!شراب ، جوا ، بت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہو ،تا کہ نجات پاؤ۔”

شہر اسلامی قوانین کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں،دنیا میں اس وقت قریباََ 57 اسلامی ممالک ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ ممالک منشیات کے مکمل خاتمے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائے ، ہیروئن کی پیداوار میں گزشتہ تین دہائیوں سے اسلامی ملک افغانستان کا نام سرفہرست رہا ہے ،وطن عزیز پاکستان میں منشیات کے استعمال کارجحان روس افغانستان جنگ کے بعد بڑھا ، اسی(80) کی دہائی میں افغانستان میں روسی مداخلت اور جنگ کے بعد افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے یہاں ڈیرے ڈالے،جس سے کلاشنکوف اور ہیروئن کا استعمال وطن عزیزپاکستان میں تیزی سے پھیلا ، ہیروئن (سفیدپائوڈر) جس کی وجہ سے نوجوان نسل بالخصوص اور پوری قوم بالعموم بری طرح سے متاثر ہو ئی اور ہو رہی ہے منشیات کے استعمال کی بنیادی وجہ دین سے دوری ، نشہ آور اشیا کے استعمال کے نقصانات سے بے خبری ہے ، اس کاروبار میں ملوث افراد راتوں رات امیر ہو جاتے ہیں ، ہیروئن کی ایک کلو مقدار عالمی مارکیٹ میں کروڑوں روپے ہے ، وطن عزیز پاکستان میں سگریٹ سازی کی صنعت کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل رہی ہے، سگریٹ کی ڈبیہ پر”خبردار ! تمبا کو نوشی صحت کے لیے مضر ہے” لکھ کر حکومت نے سگریٹ سازی کی صنعت کو روکنے یا اس کی خریدوفروخت کے حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا.

بے شمار نشوں نے معاشرے کے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ،وطن عزیز پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی وجہ سے نشہ آور اشیاء کے خلاف بھر پور کارروائیاں کرتے ہوئے بڑے منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود غیر سر کاری اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ افراد مختلف قسم کے نشوں کا شکار ہیں جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ساٹھ لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں وطن عزیز میں منشیات جیسی لعنت کے خاتمے اور اس کے خلاف آگہی دینے کے لئے بے شمار این جی اوز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ ٹریٹمنٹ سینٹرز کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے جہاں مختلف نشوں کے شکار ان افراد کی بحالی اور علاج ممکن ہو سکے ۔ منشیات کے خاتمہ کے لئے علما کرام ،اساتذہ سمیت ذرائع ابلاغ پر انتہائی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لئے بھر پور کردار ادا کریں ۔

Twitter: @shehryarsialvi

Leave a reply