اسلام آباد(محمداویس)تمام صوبائی حکومتیں جلدازجلد مقامی حکومتوں کا الیکشن کروائیں،قائمہ کمیٹی کی سفارش ،اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف نے سفارش کی کہ تمام صوبائی حکومتیں جلدازجلد مقامی حکومتوں کا الیکشن کروائیں۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف نے دستور ترمیمی بلز آرٹیکل 140اےاورآرٹیکل 185چارکو اتفاق رائے سے پاس کرلیا،کمیٹی نے سفارش کی کہ تمام صوبائی حکومتیں جلدازجلد مقامی حکومتوں کا الیکشن کروائیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف نے کہا ہےکہ دستور ترمیمی بل آرٹیکل 140اے کے تحت مقامی حکومتوں ختم یاتحلیل ہونے کی صورت میں120 دن کےاندر الیکشن کرانے لازمی ہوں گے اگر مقامی حکومتوں کانیاقانون بنتاہے توایک سال کے اندر الیکشن ہوں گے ،جبکہ مقامی حکومتوں (بلدیاتی اداروں)کومزید انتظامی ،مالی اورسیاسی اختیارات دیئے جائیں گے ،دستور ترمیمی بل آرٹیکل185چار کے تحت پھانسی کی سزا ہوجانے کے بعد مجرم کوسپریم کورٹ میں براہ راست اپیل کا حق ملے گااور سپریم کورٹ 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کی پابندہوگی۔کمیٹی نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑا کر25 کرنے پر وزاررت قانون انصاف اور پاکستان بارکونسل سمیت صوبائی بارکونسلوں سے تجاویز طلب کرلیں۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کا اجلاس ریاض فتیانہ کی سربراہی میں ہوا ۔اجلا س میںرکن عطااللہ ،لال چند ملہی ،محمدفاروق اعظم ملک ،کشورزہرہ،محمود بشیرورک،عثمان ابرھیم ،قادرخان مندوخیل،نفیسہ شاہ اورعالیہ کامران نے شرکت کی ۔جبکہ کمیٹی میں سیکرٹری وزارت قانون انصاف اور سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بھی شرکت کی۔دستورترمیمی بل آرٹیکل 140اے کے محرک جاویدحسین اور کشورہ زہرہ نے اپنی اپنی ترامیم کمیٹی میں پیش کیں ۔جاوید حسنین نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں تسلسل نہیں رہاہے ۔ملک میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کبھی وقت پر نہیں ہوئے ہیں۔لوکل گورنمنٹ کے دارے سڑکوں پر ہیں کسی کو بحال نہیں کیا گیاہے ۔لوکل گورنمنٹ کے داروں کا عوامی مسائل کے حل میں اہم کردار ہے،میں ترامیم لائی ہے کہ مقامی حکومتیں کا 60دن کے اندر الیکشن کروایا جائے جب ان کو معطل کرے یا ختم کیاجائے یہاں پر کئی کئی سال الیکشن نہیں ہوتے ہیں ۔
بل کی محرک کشور زہرہ نے کہاکہ ہم لوکل گورنمنٹ کی اختیارات کی بات کرتے ہیں مالیاتی، انتظامی اور سیاسی اختیار ملنا چاہیے ۔چیرمین کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہاکہ پاکستان میں تین حکومت ہیں ایک وفاقی دوسری صوبائی اور تیسری بلدیاتی ادارے ہیں ۔مشرف کا لوکل باڈی کا نظام بہترین نظام تھا ان سے اختلاف ہوسکتا ہے انہوں نے لوکل باڈی کو اختیار دیئے ۔اگر فرد پسند نہ ہو تو اس کا کام پسند کیا جائے ۔لوکل گورنمنٹ 18ویں ترمیم کے بعدصوبائی معاملہ ہوگیا ہے ۔رکن کمیٹی فاروق اعظم نے کہاکہ جولوگ مشرف کے پسندیدہ تھے ان کے پاس اختیار تھے باقیوں کے پاس نہیں ہوتے تھے ۔ریاض فتیانہ نے کہاکہ مشرف کا لوکل نظام اتنا مضبوط تھا کہ 5ایم این اے استعفیٰ دے کر لوکل گورنمنٹ میں چلے گئے تھے۔نفیسہ شاہ نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔جب امر آتے ہیں تو صوبائی حکومت کو پیچھے چھوڑ کر لوکل حکومتوں کو ترجیح دی جاتی ہےسب صوبوں کا اس پر اعتراض ہیں جس کی وجہ سے الیکشن نہیں ہورہے ہیں یہ ایک سیاسی ایشو ہے ۔تحریک انصاف تین سال کے باوجود لوکل گورنمنٹ کا نظام نہیں لے کر آسکی۔
لال چند ملہی نے کہاکہ مقامی حکومتوں کا ٹائم فریم ہونا چاہیے کہ مدت ختم ہونے کے 60یا 90دن بعد الیکشن کرنا ضروری ہے ۔دونوں بل کی حمایت کرتا ہوں ۔سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ کاالیکشن 60دن میں کرایا جائے پر جزوی اتفاق کرتےہیں ہم چاہتے ہیں کہ 120دن کے اندر الیکشن کرائے جائیں ہم اس بل کی حمایت کرتے ہیں ۔ سیکرٹری وزارت قانون انصاف نے کہاکہ اس کے لیے دستوری ترمیم کی ضرورت نہیں ہے ۔ قادر مندوخیل نے کہاکہ کوکل گورنمنٹ کا الیکشن 60دن میں کرائے جائیں یا 120میں ہمیں اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔مردم شماری ہوگی تو الیکشن ہوسکے گا ۔کراچی میں سیاسی جنگ ہے ۔18ویں ترمیم کو بھی چھیڑا جارہاہے سیاسی جماعتوں کے درمیان بات ہونی چاہیے ۔
لال چند نے کہاکہ ایم این اے گلیاں بناتے ہیں جو کہ ان کا کام نہیں ہے ۔کشور زہرہ نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ کو اختیارات ملنے چاہیے صوبے کو اختیار وفاق سے مل گئے ہیں اب صوبے کو چاہیے کہ وہ آگے بلدیہ کواختیار دیں کراچی میں پولیس بدامنی کی وجہ بن چکی ہے۔ ملک فاروق اعظم نے کہاکہ بلدیاتی نظام پر فوراعمل ہونا چاہیے تاکہ عوام کو فائدہ ہو۔پارلیمنٹ کاکام نہیں ہے کہ گلیاں بنائی جائیں۔محمود بشیر ورک نے کہاکہ بل میں اس بات کوتعین نہیں ہے کہ کون سی تاریخ 60 دن گنے جائیں اسکا تعین کیا جائے گا۔پرویز مشرف کے نظام میں زیادتی یہ تھی کہ ایک ضلع کا ناظم پورے ضلع کا الیکشن لڑتا تھا ۔ایوب خان کا نظام بہترین تھا ۔ریاض فتیانہ نے کہاکہ جو کونسلر کا کام تھا وہ ایم این اے کو کرنا پڑ رہا ہے اور وقت ضائع ہورہاہے ۔بلدیاتی نظام اپنی مدت مکمل کریں تو 120دن اور اگر قبل ازوقت ہوتوبھی 120دن میں الیکشن کرایا جائے ۔صوبائی حکومت کے ساتھ بات کرکےشیڈول جاری کیا جائے گا ۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ تمام صوبائی حکومتیں جلدازجلد مقامی حکومتوں کا الیکشن کروائے ۔
قادر خان مندوخیل نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سےترمیمی بل کمیٹی میں پیش کیا۔ قادر خان مندوخیل نے کہاکہ پاکستان کی عدلیہ 128نمبر پر ہے 1947کےکیس بھی آج تک چل رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی 17ہے بل میں یہ تعداد 25کرنا چاہتے ہیں ۔ عالیہ کامران نے کہاکہ امریکہ میں ججوں کی تعدادکتنی ہے جس پر بتایاگیاکہ امریکہ میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17ہے۔جس پر عالیہ کامران نے کہاکہ امریکہ میں 17 ہیں تو پاکستا ن میں بھی 17 ٹھیک ہیںان 17 کو لگائیں۔چیرمین ریاض فتیانہ نے بل پر پاکستان بار کونسل سمیت تمام بارکونسلز سے تجویز مانگ لی کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں کتنے جج ہونے چاہیے ۔وہ کمیٹی کو اپنی سفارشات سے آگاہ کریں۔جاوید حسنین نے دستور ترمیمی بل آرٹیکل185(ــ4)کمیٹی میں پیش کیا۔جس کی وزارت نے مخالفت کردی۔سیکرٹری نے کہاکہ ایک دو کیس کے لیے دستوری ترمیم نہیں کی جاتی ہے ۔
جاوید حسنین نے کہاکہ آئین میں طے ہوگیا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا ۔مگر قانون میں کوئی چیزیں ہیں جو قرآن وسنت کے خلاف ہیں ۔مقتول کے ورثہ قاتل کو معاف یا دیت وصول کر کے معاف کرسکتے ہیں ۔ قرآن کے تحت جو شخص کسی کوقتل کرئے گااس کوسزاکے طور پر قتل کیاجائے گا۔ ہے۔ اس ترامیم میں یہ استدعا کی ہے کہ جس مجرم پر قتل کاجرم ثابت ہوجائے سپریم کورٹ اس کی براہ راست اپیل جائے اور اس پر سپریم کورٹ 90 دن کے اندر فیصلہ کرئے ۔ سپریم کورٹ کی ماڈل کوٹس ایک ہفتہ میں فیصلہ کررہے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بھی جلدی فیصلہ کرے 17سال فیصلے نہیں ہوتے ہیں ۔سیکرٹری نے کہا کہ یہ پیچیدہ مسئلہ ہے کمیٹی کو اس معاملے پر بریفنگ دینا چاہتا ہوں ۔
محمود بشیر ورک نے کہاکہ قاتل کو سزا ہو جائے تو سپریم کورٹ اس پر اپیل کا فیصلہ 90دن میں کرے اس طرح ہوسکتاہے ۔کمیٹی ارکان نے کہاکہ پھانسی کے مجرم کی کئی کئی سال درخواست نہیں لگتی ہے اگر اس کو بری کرناہے یاسزادینی ہے وہ جلد ہوناچاہیے اس کی وجہ سے اس کے خاندان کے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ پھانسی کے مجرم کوبراہ راست سپریم کورٹ میں اپیل کاحق ہوناچاہیے اور سپریم کورٹ کوپابندکیاجائے کہ وہ 6 ماہ کے اندر کیس کافیصلہ سنائے اس سے خاندان والے بھی عزیت سے بچ جائیں گے ۔کمیٹی نے بل ترمیم کے ساتھ پاس کرلیا جس کے تحت پھانسی کے مجرم کوبراہ راست سپریم کورٹ میں اپیل کاحق دے دیاجائے گااور سپریم کورٹ 6 ماہ کے اندر اس کیس کافیصلہ کرنے کی پابندہوگی۔