کرپشن ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج جہاں ہمیں غربت، بے روزگاری جیسے مساٸل کا سامنا ہے وہاں کرپشن بھی ایک خطرناک مسٸلہ ہے ۔کرپشن اور بدعنوانی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جو صرف ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو تباہ کرتا ہے۔ کرپشن کی ایک وجہ یہ ہے کہ کرپٹ لوگوں کے لیے کوئی مضبوط قانون سازی اور سزا نہیں ہے۔ کلرک سے لے کر افسر تک ہر کوئی اس میں شامل ہے۔ بدقسمتی سے آج کل کرپشن ہمارے ملک کا فیشن اور کلچر بن چکی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے روشن مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کرپشن کیوں بڑھ رہی ہے؟ حکام اور اداروں کے سربراہ اس پر قابو پانے میں کیوں ناکام رہے؟ حکام کی جانب سے کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ یہ سوالات جواب کے منتظر ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان سوالوں کا کوئی جواب موجود نہیں۔
1947 سے 2021 تک ، جب ہم اپنے ملک کی ترقی کی رپورٹ پڑھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کو صرف کرپشن کی وجہ سے کتنا نقصان پہنچا ہے۔ ہمارے سیاستدان بھی اس میں ملوث ہیں انہوں نے جس حد تک ممکن تھا کرپشن کی وہ پاکستان کے اثاثے چوری کیے اور عوام کے ٹیکس کے پیسے سے بیرون ملک جائیدادیں بناٸیں اور دیگر اداروں کے افسران بھی اس میں شامل ہیں لیکن پھر بھی ، انہیں اس پر کوئی شرم نہیں۔ ان کے لیے کوئی سزا نہیں ہے اور وہ آزاد ہیں اسی وجہ سے انہیں مذید شے ملی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی کو یہ سوال کرنے کا حق نہیں ہے کہ آپ نے ہمارے اثاثے کیوں چوری کیے؟ آپ نے ٹیکس کا پیسہ کہاں خرچ کیا؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ 2012 کے مطابق ، پاکستان کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران کرپشن اور ٹیکس چوری کی وجہ سے پاکستان کو 94 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ 2013 سے 2017 تک ، نواز شریف حکومت کے تحت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان نے بدعنوانی میں اپنا سکور 28 سے بڑھا کر 32 کر دیا ہے۔ کرپٹ سیاستدان ضمانت پر باہر نکلتے ہیں اور پھر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور پھر وہ واپس نہیں آتے اور اس لیے کرپشن کے بہت سے مقدمات زیر التوا ہیں۔ اگر بروقت فیصلے سنائے جائیں اور بدعنوانی کے خلاف سخت سزا دی جائے تو کرپشن جیسی لعنت کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے ورنہ کرپشن ہمارے ملک کو دیمک کی طرح کھا جائے گی۔
یہاں تک کہ اکثر لوگوں کو میرٹ کی بنیاد پر نوکری نہیں ملی اور وہ صرف اس کرپٹ نظام کی وجہ سے بے روزگار ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی سفارش اور پیسہ نہیں ہے۔ سیاستدان اور دیگر افسران اپنے دوستوں ، رشتہ داروں وغیرہ کا حوالہ دیتے ہیں یا ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ جب انتخاب میرٹ کی بنیاد پر ریفرنس سسٹم پر کیا جاتا ہے تو پھرکچھ ناخواندہ ، ان پڑھ اور غیر ہنر مند لوگ رکھے جاتے ہیں جو کسی بھی ادارے کو بہتر طور پہ نہیں چلا سکتے اور اداروں کی تباہی کا باعث بنتے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر اس نظام کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ماضی میں کرپشن کے بہت سارے کیسیز سامنے آۓ جیسے رینٹل پاور پراجیکٹ ، حج کرپشن کیس ، پاکستان سٹیل مل کیس ، اوگرا کیس ، منی لانڈرنگ ، اور شوگر مل گھوٹالہ وغیرہ۔ 1999 میں ایک آرڈیننس پاس کیا گیا کہ قومی احتساب بیورو ہونا چاہیے۔ لہذا ، ایک قومی احتساب بیورو جو کہ ایک وفاقی ادارہ ہے ، ادارے کی کارکردگی کو جانچنے اور اس میں توازن پیدا کرنے اور اداروں کو بدعنوانی سے جتنا ممکن ہو چھٹکارا دلانے کے لیے قائم کیا گیا ، اور اس ادارے کی طرف سے معاشی بےضابطگیوں کے خلاف تنقیدی معاشی رپورٹ بھی جاری کی گٸی۔
لیکن اس ادارے کے قیام کے باوجود ملک میں بدعنوانی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لہذا ، ہمیں فوری طور پر موثر اصلاحات کو اپنانا چاہئیے اور قوانین کے فوری نفاذ کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ اس خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے جس نے ہمارے ملک کی ساکھ کو سماجی اور معاشی طور پر کمزور کردیا ہے۔
@sbwords7