بولی لگائیں اور نمبر حاصل کریں تحریر ذیشان احمد

جس قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس قوم کا تعلیمی معیار گرا دو تو اس قوم کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا.

آج کل خیبر پختون خواہ کے مختلف تعلیمی بورڈز کے نتائج آرہے ہیں جس میں زیادہ پیسہ کمانے کی ریس لگی ہوئی ہیں. بورڈز میں چیئرمین سے لیکر کلاس فور تک سب کے انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہیں.

امتحانات پر ان استادوں کی ڈیوٹی لگتی ہے جو چیئرمین بورڈ کے انگلیوں پر ناچتا ہوں اور سکول انتظامیہ کی مرضی سے ان کے سکول پر امتحانی عملہ تعینات ہوتا ہے.
بورڈ کے اعلی آفسران کیساتھ ساتھ انکے کلرکس اور ڈرائیوروں کی بھی آؤبھگت کی جاتی ہیں۔
جو استاد کسی نجی سکولز اینڈ کالجز کے امتحانی ہالز پر ڈیوٹی سرانجام دیتا ھے۔
تو وہ چیئرمین  کنٹرولر امتحانات اور نجی سکولز اینڈ کالجز کے مالکان کے پہلے سے مرتب طریقہ کار کے مطابق ڈیوٹی کرنے  کا پابند ہوتا ہے۔
ان استادوں میں تین خصوصیات کا ہونا لازمی ہونا چاہیئے
نمبر 1۔ آندھا
نمبر 2۔ بہرا
نمبر 3. گونگھا
لازمی بننا چاہیئے ورنہ اس پر کئی قسم کے دباؤ کا آندیشہ ہوتا ھے
بعض اوقات اس پر لڑکوں اور لڑکیوں سے چھیڑ خانی کے الزامات لگ سکتے ہیں
جس پر چیئرمین بورڈ اس استاد پر پورے پانچ سالہ پابندی بھی عائد کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے کوئی ایماندار استاد اس سسٹم میں نہیں آسکتا.

نجی سکولزاور کالجز آپنی پسند کا عملہ تعینات کرنے کی پوری قیمت ادا کرتے ہیں۔
  امتحانات شروع ہونے سے کچھ ہفتے قبل فری امتحانی ہالوں کے عوض طلبہ سے بھاری رقوم کے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ جس کے بدلے طلباء امتحانی عملے کے سامنے نقل کرتے ہیں.

امتحانات شروع ہوتے ہی تعلیمی بورڈز کے ملازمین کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں. چیئرمین بورڈ، سیکرٹری، کنٹرولر اور دیگر بڑے عہدوں والے کو گفٹ مطلب رشوت میں گاڑیاں، سونا اور نقد رقم ملتی ہیں.
امتحانی عملہ برانڈڈ کپڑوں اور مرغ پر اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں.

ہمارے تعلیمی نظام کا ایسا برا حال ہوا جو سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کیونکہ مردان بورڈ کو ایک لڑکی نے 1100 کے ساتھ ٹاپ کیا تو کیا یہ تو نیوٹن سے بھی زیادہ تیز ذہن کی مالک تھی جس سے دوران امتحان ایک غلطی بھی نہ ہوسکی. اس میں لڑکی کی غلطی نہیں ہے بلکہ سسٹم کی غلطی ہے کیونکہ ہمارا سسٹم اتنا تباہ ہوگیا ہے کہ ہر سال 95 فیصد سے زائد نمبروں والے طلبہ کثیر تعداد میں فارغ ہورہے ہیں مگر ہمارا ملک تباہی کی طرف جارہا ہے تو سوال بنتا ہے کہ یہ آخر ذہین طلباء جاتے کہاں ہے اور ہمارے ملک میں سائنسدان کیوں نہیں بنتے؟

ہرسال رزلٹ سرکاری سکولز اینڈ کالجز کی بجائے نجی سکولز اور کالجز کے پوزیشن ھولڈر کے نام کیاجاتاہے۔
تعلیمی بورڈ سرکاری سکولز اینڈ کالجز طلبہ کو آٹا میں نمک کے برابر بھی پوزیش نہیں دیتے
اور انکو کم ظرفی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ کچھ ذہین طلباء اسی وجہ سے تباہ ہوجاتے ہیں کہ وہ غربت کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے اور مجبوراً سرکاری سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں اور سرکاری سکولوں کے حالات تو سب کے سامنے ہے اور یوں ایک ذہین ستارہ اجھل ہوجاتا ہے.

صرف ڈگری حصول روزگار کا زریعہ نہیں ھوتا بلکہ بہترین معاشرے کی تشکیل کا آئینہ دار بھی ہوتی ھے۔
جس قوم کا تعلیمی معیار گر جاتا ھے اس قوم کو دوبارہ کھڑا ھونے کیلئے ایک صدی درکار ہوتی ھے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ان نمبروں کی ریس کو ختم کریں اور ہر قسم کے داخلوں اور نوکریوں کیلئے اپنا ٹیسٹ لے.

Comments are closed.