”پیرکامل وہ انسان جس میں کاملیت ہوتی ہے۔ کاملیت یعنی دینی و دنیاوی ہر لحاظ سے مکمل، جس کی عبادات خالص رضائے الہی کیلیے ہوتی ہیں، جو نیکی و پارسائ کا منہ بولتا ثبوت ہو، جس کی ہر دعا کو قبولیت کی سند حاصل ہو، جس کے کلام کی تاثیر سے پتھر موم ہو جائیں، جس کو الہام نہیں وجدان حاصل ہو، ایسا انسان کامل جس پر خواب نہیں وحی اترتی ہو اور وحی بھلا عام انسانوں پر کہاں اترتی ہے
سائنس جتنی مرضی ترقی کر لے ،انسان شہرت و کامیابی کی بلندیوں کے عروج پر بھی پہنچ جائیں پھر بھی کہیں ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب وہ پیر کامل کی ضرورت محسوس کرتا ہے، ہر زی روح کی کتاب حیات میں کہیں ایسا ورق ضرور کھلتا ہے جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے لبوں سے نکلی ہر دعا اور دل سے نکلی ہر صدا بے اثر ہے، اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ خدائے بزرگ و برتر کی نعمتوں و رحمتوں کا رخ اپنی طرف موڑنے سے کاثر ہیں، اس لمحے روح و دل کا وہ تعلق جو خدا سے ہے وہ ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے تو پھر انسان پیر کامل کی تلاش کی جستجوں لیے ایسے انسان کی تلاش میں دوڑتا ہے جو اسکے لیئے خدا کے سامنے گڑ گڑائے، جس کی دعائیں رد نا ہوتی ہوں جو الہام نہیں وجدان رکھتا ہو
پیرکامل کی یہ تلاش آج کی بات نہیں یہ ارتقاء انسانی سے جاری ہے ۔ ایک ایسی تلاش جس کی خواہش اللہ خود قلب انسانی میں پیدا کرتا ہے۔ انسان کی یہی تلاش ہی تھی جو اسے ہر زمانے میں اتارے جانے والے پیغمبروں کی طرف لے جاتی رہی، جس نے انسانوں کو پیغمبروں پہ یقین کا راستہ دکھایا۔
انسان کی فلاح و بہبود کیلیے بھیجے گئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے خدائے برتر کا ہر پیغمبر کامل تھا مگر پیرکامل صرف ایک ،جس کو بھیجنے کا بعد خدا نے سلسلہ نبوت کا اختتام فر مادیا، جسے رحمت العالمین کا خطاب دیا، جس سے دو جہاں کی تاریکیوں نے روشنائی پائی۔جس سے اپنے تو اپنے غیروں نے بھی شفا حاصل کی،، جس کے جیسا کوئ دوسرا تو کیا انکا سایہ بھی تخلیق نا ہوا
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں،
جس کی امت کو تمام امتوں کا سردار کہا گیا ہو کیا اس امت کو کسی اور پیر کامل کی ضرورت ہو سکتی ہے؟
پیر کامل صرف میرے نبی کی زات ہے نا ان سے پہلے نا انکے بعد کوئ ایسی ہستی ہو گی جسے محبوب خدا سے بڑھ کر کاملیت کا درجہ دیا جائے ۔
رسول اللہ کے ہوتے ہوئے کسی اور پیر کی تلاش کیوں؟ جب ہم نبی آخر الزماں کے امتی ہیں ختم الرسل کے بیعت شدہ ہیں تو پھر کسی اور کی بیعت کیا ضرورت؟
دین اسلام ہمیں توحید و اخوت کا درس دیتا ہے، جب تمام مسلمانوں کے لیے ایک اللہ، ایک آخری رسول ،ایک آخری کتاب ایک ہی سنت ہے تو پھر اس راستے کو چھوڑ کر فرقوں، گروہ بندیوں اور نت نئے راستوں کی تلاش کیوں؟
کیا ہمارے نبی کا کوئ فرقہ تھا؟ وہ تو رحمت اللعالمین ہیں،وہ ہر فرقے سے بالاتر ایک مسلمان تھے جو صراط مستقیم کے راہی تھے جنہوں نے ہر زی روح کو صرف ایک خدا اور دین اسلام کا پیغام دیا ،جو محسن انسانیت ہیں جنہوں نے ہمیشہ یہ سیکھایا کہ خدا کی طرف جانے کا راستہ صرف ایک ہی ہے اگر سیدھے راستے پہ چلیں گے تو جنت اور اگر سیدھے راستے کو چھوڑ دیں گے تو جہنم
صراطِ مستقیم کا درس دیتے ہوئے میرے نبی نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں فرمادیا ہے،کہ جس کام کا اللہ حکم دے وہ کرو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ ۔ آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وسلم قرآن مجید کی عملی تفسیر ہیں جس میں کوئ ابہام نہیں ہے، کسی چیز کو کسی بات کو، کسی شریعت کو پردے میں نہیں رکھا گیا ہر چیز کو ہر مسلے کو کھول کر بیان کیا گیا ہے،
آپ کی زات مبارکہ وہ واحد زات ہے جسے ”دانائے سبل مولائے کل ختم الرسل” کے لقب سے نوازا گیا۔
ذات محمدی ﷺ ابر رحمت کی مانند ہے ہے جس نے عرب وعجم کے مردہ دلوں کو جلا بخشی ، ہم پہ تو احسان عظیم کیا گیا ہے کہ ہم پیدا ہی انکی امت میں کیئے گئے ہیں ،ہمارے لئیے تو راہ حیات پہلے سے مقرر فرما دی گئی ہے کہ
راہ ھدائت کی تلاش ہے تو قرآن سے مدد لیجیے درگاہوں سے نہیں،
دعا قبول نہیں ہوتی تو درباروں اور تعویزوں کا سہارا ڈھونڈنے کی بجائے اللہ سے تعلق مظبوط بنائیں، الفاظ نہیں مل رہے تو بھی بس ہاتھ پھیلا دیجیے وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ تو بن کہے بھی جان لیتا ہے اور اگر پھر بھی وہ آرزو پوری نہیں ہو رہی تو صبر کر لیجیے کہ اسی میں بہتری ہے
زندگی کی سمجھ نہیں آرہی تو اسوہ حسنہ سے مدد لیجیئے ۔
ولی اللہ، اولیائے اکرام، شہداء، صالحین، بزرگان دین، پیر، فقیر سب سے عقیدت رکھیں سب کا احترام بھی کریں لیکن مدد صرف اس زات سے مانگیں جو وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ اطاعت و بندگی صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کریں، کیونکہ انہوں نے جو کچھ ہم تک ہم پہنچایا اس میں سے ایک لفظ بھی انکا خود کا شامل کردہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ احکامات ہیں ۔
نبی ختم المرسلین کی زات مبارکہ نا صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی باعث شفاعت و نجات ہے، آپ کی مدح سرائ میرے حقیر الفاظ کے بس میں نہیں قصہ مختصر آپ ﷺ کی سوانحہ حیاتی کا ہر لمحہ ہر پہلو نوح انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور سراج منیر ہے جس سے ہر دور میں ہر کوئ ہر شعبۂ زندگی سے متعلق فیض حاصل کر سکتا ہے ۔
تھکی ہے فکر رساں ، مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا ، مدح باقی ہے
اورعمر تمام لکھا، مدح باقی ہے
@_Ujala_R








