بیجنگ: بھارت اور چین کے درمیان سرحدوں پر 17 ماہ سے جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہونے والے 13 ویں دور کے مذاکرات بھی ناکام ہوگئے فریقین نے مذاکرات کی ناکامی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
باغی ٹی وی: سرحدوں پر کشیدگی کے خاتمے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے 17 ماہ سے دونوں ممالک کے افواج کے درمیان مذاکرات جاری تھے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے اور دوسرے برس بھی منجمد کردینے والی سخت سردی میں دونوں افواج کو سرحدوں پر ڈیوٹی دینا ہوگی۔
چین اور بھارت کے فوجی کمانڈرز نے مذاکرات میں ناکامی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں کے لیے قابل قبول تجاویز پر اتفاق نہیں ہوسکنے کے باعث مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔
بھارتی فوج نے پیر 11 اکتوبر کو نئی دہلی میں جاری ایک بیان میں کہا کہ اس اجلاس میں فریقین نے مشرقی لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر مسائل کے حل پر اپنی توجہ مرکوز کی،تاہم چینی حکام نے ہماری تجاویز قبول نہیں کیں اور نہ ہی وہ کوئی قابل غور تجویز پیش کر سکے۔
بھارتی فوج کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کی جانب سے باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے اور صورت حال کو تبدیل کرنے کی یک طرفہ کوششوں کی وجہ سے سرحد کی متنازعہ صورت حال کے بارے میں بھارتی حکام نے اپنا موقف دہرایا اور اس بات پر زور دیا،”چین مناسب اقدامات کرے تاکہ مغربی سیکٹر میں ایل اے سی پر امن اور خیر سگالی بحال ہو سکے۔
بھارت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ اقدمات دوشنبے میں گزشتہ دنوں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ہونے چاہییں، جہاں دونوں رہنماؤں نے تمام مسائل کو جلد از جلد حل کرنے پر زور دیا تھا۔
چینی فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج غیرمعقول اور غیر حقیقت پسندانہ مطالبات پر بضد ہے اور مذاکرات میں جان بوجھ کر مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے تاہم امید ہے کہ بھارت صورت حال کو سمجھنے میں غلطی نہیں کر ے گا، سمجھداری اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقدامات کرے گا اور سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام کی حفاظت کے لیے مل جل کر کام کرے گا۔
خیال رہے کہ دونوں افواج کے کمانڈروں نے گزشتہ روز ہی لداخ کے علاقے میں چینی سرحد پر دو ماہ کے وقفے کے بعد مذاکرات کے لیے ملاقات کی تھی۔
واضح رہے کہ لداخ میں اسٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت کی حامل گلوان وادی میں گزشتہ برس جون میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔سرحد پر چار مقامات سے افواج کی مرحلہ وار واپسی کے بعد ایک بار پھر دونوں ملکوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بلند پہاڑوں پر ہزاروں کی تعداد میں اضافی فورسز تعینات کر دی ہیں۔
دونوں ملکوں نے حقیقی کنٹرول لائن کے آس پاس تقریباً 50000 سے 60000 فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔
دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سرحد پر تعطل شروع ہونے کے بعد سے چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں ایسے بڑے ڈھانچے تیار کر لیے اور تیار کر رہا ہے، جہاں سرد ترین موسم میں بھی فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوکہ بعض مقامات سے چینی افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں لیکن اہم ٹھکانوں پر وہ اب بھی موجود ہیں۔اس نئے انفرا اسٹرکچر میں ہیلی پیڈ، نئے بیرک، زمین سے فضا میں میزائل داغنے والے مقامات، ریڈار کی تنصیب کے ساتھ ساتھ چین نے نئے پل اور سڑکیں بھی تعمیر کر لی ہیں۔
ماہرین کے مطابق بھارت نے بھی اپنے حصے میں ایل اے سی پر اپنے بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم نروانے نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ چین نے سرحد پر یہ صورتحال کیوں پیدا کی،لیکن جو کچھ ہوا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس سے انہیں کچھ حاصل ہو سکا ہے کیونکہ بھارتی مسلح افواج نے ان کو تیزی سے جواب دیا اگر چینی فوج لداخ میں اپنی فوج کی بڑے پیمانے پر تعیناتی کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو بھارتی فوج بھی ایسا ہی کرے گی۔