ٹویٹر: IamSaadatAbbasi@
چند روز قبل کی بات ہے کہ ٹویٹر پر میری نظروں سے ایک ٹویٹ گزری جو ایک معروف پاکستانی سلیبرٹی کی طرف سے کی گئی تھی جس میں انہوں نے یہ لکھا کہ میں نے تین شادیاں کی اور تینوں میں سے کوئی شوہر بھی مجھے خوش نہ رکھ سکا۔ اب یہ اس سلیبرٹی کی طرف سے ایک نارمل ٹویٹ تھا جو انہوں نے اپنی لائف کے حوالے سے کیا جو کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی تہذیب وتمدن سے پاک تھا لیکن ہمارے سوشل میڈیا صارفین پر صد ہا افسوس کہ اس ٹویٹ کو ایسا رنگ دیا کہ اس معروف سیلبرٹی کو اپنا وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑا۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس ٹویٹ کو لیکر ایسی نازیبہ گفتگو کی جو کہ لکھنے کے قابل نہیں ہے۔ اب اسی تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں اگرایسے حالات کسی مرد کی زندگی میں آتے اور وہ ان کا ذکر سوشل میڈیا پر کرتا کہ میں نے تین شادیاں کی لیکن تینوں بیویاں مجھے خوش نہ رکھ سکی تو اس پر بھی تنقید مرد پر نہیں کی جاتی بلکہ اس میں بھی تنقید کا نشانہ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے خواتین کو بنایا جاتا۔ اور ان خواتین کے بارے میں ایسی ایسی گفتگو کی جاتی جو قابل ذکر بھی نہیں ہوتی۔
جب کہ ہمارا تعلق ایک اسلامی ملک سے ہیں ہم ایک اسلامی ملک میں پیداہوئے ہیں اور ہمارا مذہب اسلام خواتین کی عزت واحترام کا درس دیتا ہے لیکن بطور ایک سوشل میڈیا صارف ہم کیوں نہیں اس بات کو سمجھ پاتے ہیں کہ ہمارے گھر میں بھی ماں،بہن، بیٹی موجود ہیں کل کو ان پر بھی ایسے وار ہوسکتے ہیں جس سے ان کی دل آزاری ہوسکتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم کیوں ہر چیز میں نشانہ خواتین کو ہی بناتے ہیں؟ کیا ہماری تعلیم میں کمی رہ جاتی ہے یا ہماری تربیت اچھی نہیں ہوپاتی جس کی وجہ سے ہم اس ٹریک پر چل پڑتے ہیں جس سے کسی کی بھی دل آزاری ہوتی ہو۔ دو ماہ قبل اسلام آباد میں قتل ہونے والی سابق سفیر کی بیٹی نورمقدم کو بھی سوشل میدیا صارفین تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جس سے بہت سارے ان کے فیملی کے لوگ دوست احباب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہی چھوڑ کے چلے گئے ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پرایک اور معروف پاکستانی سرجن نے ایک تصویر جس میں انہوں نے اپنی چند جونیئر سرجنز کے ساتھ اس عنوان کے ساتھ اپلوڈ کی کہ خواتین بھی سرجن بن سکتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں ہمارا بازو بن کر کام کر سکتی ہیں اس تصویر کے نیچے جہاں بہت سارے صارفین اس بات کو سراہا رہے تھے وہی پر ہمارے تنگ نظر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے ایسے کمنٹس بھی تھے جن میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ ان سب کو سرجن بنانے کی بجائے کھانا بنانا سکھا دیتے تاکہ وہ اپنے سسرال میں جا کر خوش رہ سکتی یہاں تک کہ کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وجہ سے طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے کیونکہ خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور ہر فیلڈ میں مردوں کے مد مقابل آرہی ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں، پہلی یہ کہ ایک پڑھی لکھی خاتون اپنا گھر اچھے طریقے سے چلا سکتی ہے اور ہر قدم پر شوہر کے ساتھ ملکر آگے بڑھ سکتی ہے اور دوسری بات جب ان صارفین حضرات کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہے گھر میں کوئی بیمار ہوجاتا ہے یا گھر میں کسی کا ڈلیوری کیس ہو تو یہی صارفین ہسپتالوں میں جا کر لیڈی ڈاکٹر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں یہ دوہرا معیار آخر کیوں رکھتے ہیں تب ہسپتالوں میں مرد ڈاکٹر حضرات کے پاس کیوں نہیں جاتے تب تو ہر حال میں ان کو لیڈی ڈاکٹر کو ہی دکھانا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے صارفین ہر طرح کی خواتین کو ہراساں کرتے نظر آتے ہیں کبھی مثبت رویہ نہیں اختیار کرتے ہمیشہ ہر چیز کو منفی رنگ دیتے ہیں۔ ایسے ٹرولر صارفین کے لیے حکومت کو چاہیے کہ کوئی ضابطہ اخلاق کا قانون بنایا جائے اور اس پر عملدرآمد بھی کروایا جائے نا کہ صرف قانون کی حد تک محفوظ رکھا جائے ۔ یہی پر ذکر کرتا چلوں کہ ۲۰۱۸ میں گورنمنٹ کی طرف سے سائبر کرائم قانون پاس ہوا تھا جس پر ایسے صارفین کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکتی ہے لیکن جس ادارے کو یہ کام سونپا گیا ہے ان کی قابلیت پر صدہا افسوس کیونکہ اس ادارے میں سائبر کرائم سیل میں ایسے افراد بیٹھے ہوئے ہیں جن کو انٹرنیٹ سرچنگ تک نہیں آتی اور کچھ تو ایسے ہیں جن کو کمپیوٹر آپریٹ کرنا بھی نہیں آتا۔ کچھ دن قبل ایک ایسے ہی کیس کے سلسلے میں اس ادارے میں جانا پڑا وہاں پر جا کر جب اپنی درخواست دی تو اس کے بعد اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا لنک بھی دیا لیکن پہلے تو وہاں پر انٹرنیٹ ہی ٹھیک سے کام نہین کر رہا تھا تین چار بار اس ادارے کے ایک ملازم نے انٹرنیٹ ڈیوائس کو ری سٹارٹ کر کے آخر کار انٹرنیٹ تو چلا ہی لیا اب جب اس لنک کو یوارایل میں پیسٹ کر کے سرچنگ کرنے کا میں نے کہا تو ان صاحب سے نہ ہوسکا آخر کار میں نے خود ہی ان کو سارا کام کر کے دیا، میری حکومت سے یہ اپیل بھی ہے کہ سائبر کرائم سیل میں کم از کم ان لوگوں کو بٹھایا جائے جو سائبر کرائم کو سمجھتے ہوں جس کو کمپیوٹر آپریٹ کرنا نا آتا ہو وہ کیا سائبر کرائم کو سمجھے گا۔ خیر یہ تو ایک الگ مسئلہ ہے جسکو حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا چاہیے۔
ایسے اور بھی بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں خواتین کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے ۔خدارا سنبھل جائیں ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہین مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں ہمیں اپنی خواتین کو عزت واحترام دینا ہوگا اور یہی ہمارا فریضہ بنتا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں حوس اس قدر بھر چکی ہے کہ ہر چیز میں اپنی حوس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں ۔ہماری مائیں ہماری بیٹیاں ہماری بہنیں اس ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہیں اس لیے ہر چیز سے بالاتر ہوکر ان کو عزت واحترام دیں اور ان کی عزت وآبرو کی حفاظت کریں۔
ٹویٹرپروفائل لنک:
@IamSaadatAbbasi