ترجمہ ۔
"”ہم تولوگوں کوڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں "” الاسراء ( 59 ) ۔
چھ اکتوبر کو ایک دوست کی دعوت پر کراچی سے شام چھ بجے کوئٹہ بلوچستان پہنچا۔ پرتکلف عشائیے کے بعد دن بھر کے سفر سے نڈھال میزبان کے کثیر منزلہ بیٹھک ( مہمان خانہ ) کے اوپری منزل میں تقریبا رات گیارہ بجے لیٹا ہی تھا ،کب کیسےانکھ لگی پتہ ہی نا چلا۔
ادھی رات کو مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی میرے بیڈ کو جھولا دے رہا ہو بِلبِلا کر اٹھا ۔
بیڈ مسلسل ہچکولے کھارہا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ ریا تھا اٹھتے ہی موبائل ٹارچ ان کیا تو  ٹائم تین بج کر دو منٹ تھا بیڈ ہی نہیں پورا بنگلہ جھول رہا تھا ۔
کھڑکیوں اور دروازوں کے کھڑکھڑانے کی خوفناک اوازوں سے اور بھی سہم گیا تھا۔
مجھے سمجھنے میں زیادہ دیر نا لگی۔ خوف اور زلزلے کی تباہ کاریاں جاننے کے باوجود پژمردگی سےاپنے حواس پر قابو رکھا اور مسلسل ایات الکرسی کاورد کرنے لگ گیا تھا۔
اتنی دیر میں چند اور مہمان جو نچلی منزل میں ٹھہرے تھے اور میزبان ساتھیوں کا شور سنائی دیا وہ چیخ رہے تھے باہر نکلو زلزلہ ہے۔
زلزلے کی خوف کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر نکلے ہوئے تھے  جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے ہوائی فائرنگ بھی شروع ہو چکی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جاگ کر باہر نکل سکے۔
مسجدوں میں اعلانات اور اذانیں بھی شروع ہو گئیں۔
کوئٹہ واسی کافی چوکس تھے یاد رہے مئی 1935 کا تباہ کن زلزلہ بھی رات تین بج کر تین منٹ پر ایا تھا ، جس سے چند ہی سیکنڈ میں کوئٹہ ملیا میٹ ہوا تھا اور 70 ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بنے تھے ،اس کے مقابلے میں موجودہ کوئٹہ کافی گنجان اباد اور خطرناک ہے ۔ کیونکہ کوئٹہ خطرناک فالٹ لائن پر واقع ہے۔
میں کچھ دیر بیڈ پر ساکت بیٹھا رہا جھٹکے تقریبا رک چکے تھے میں اٹھا وضو کر کے تہجد کی نماز پڑھنے بیٹھ گیا۔ ربّ سے اپنے کردہ ناکردہ ،جانے انجانے گناہوں کی معافیاں مانگتا رہا اور امت رسول ﷺ کی حفاظت و خیریت کی دعائیں مانگتا رہا۔
اتنی دیر میں دوست اوپر میرے پاس پہنچا اور باہر روڈ پہ نکلنے کی ضد شروع کر دی، میں نے  باہر نکلنے کی حامی بھری اور دوست کے ہمراہ باہر مین روڈ پہ نکل ایا۔
باہر ا کر انگشت بدنداں رہ گیا۔ روڈوں پہ جمِ غفیر امڈ ایا تھاہر طرف لوگ ہی لوگ۔خواتین بوڑھے اور بچوں سے روڈ بھرے تھے۔ہر چہرہ خوفزدہ تھا  نفسا نفسی کا عالم تھا سب نوح کناں تھے۔
ہر ایک کی لبوں پہ ذکر قرانی تھا کچھ با اواز بلند ذکری کلمات پڑھ رہے تھے اور کچھ گڑ گڑا کر اپنی گناہوں کی معافیاں مانگ رہے تھے۔
ہلکی سردی محسوس ہو رہی تھی لیکن اللہ تبارک تعالی کا کرم خاص تھا کہ موسم زیادہ سرد نا تھا اگر کچھ دن کے فرق سے یہ زلزلہ اتا تو زلزلے کے ساتھ ساتھ سردی کی تباہ کاریاں بھی مشکلات میں اضافہ کر سکتی تھیں۔
مں نے رب کا شکر ادا کیا کہ اس پاس پڑوس سے ابھی تک  کسی جانی یا  مالی  نقصان کی اطلاع نہیں تھی۔
ایک اور بات جو میں نے مشاہدہ کی تھی کہ فرقہ پرستی کو فروغ دینے والےبدعتی لوگ ،  دولت ،شہرت و بلند مرتبوں کے زعم میں مبتلا  گمراہ لوگ ،  سب کچھ بھول کر اپنے عہدوں پیسوں اور فرقوں سے بالاتر ہو کر، بے سر و عالم ایک اللہ کی طرف متوجہ تھے ۔
فجر کے اذانوں تک اکثر لوگ باہر تھے اذانوں کے بعد بغرض باجماعت  نماز دوست کے ہمرا مسجد کا رخ کیا تو خلاف توقع مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ۔
بے شک ، میرے ربّ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
"زُلْزِلَتْ” زلزال سے ہے یعنی ہلادیا جانا۔ اَلاَرْضُ کے معنی زمین کے ہیں
ایک پارسا مسلمان  کا پختہ عقیدہ ہوتا ہے کہ زلزلے بلاسبب نہیں اتے اور  ان کیلیےزلزلوں کے دنیاوی اسباب سے انکار ناممکن  ہے بلکہ اس کے پیچھے اللہ سبحان تعالی کا حکم کار فرما ہونا ہی سمجھتا ہے۔
قران و حدیث کی رو شنی میں ،لوگوں کے برے اعمال زنا، سُود اور شراب نوشی کا عام ہونا۔ لوگوں کا گانے بجانے کو اپنا مشغلہ بنانا۔ اچھائیوں کا حکم اور برائیوں سے لوگوں کو روکنے کا عمل بند کردینا۔ لوگوں کا ان بُرے اعمال کو نا صرف کرنا ہی نہیں بلکہ انہیں جائز اور وقت کی ضرورت سمجھنے لگنا، رشوت خوری ،حلال حرام کی تمیز  سے مبرا ہوکر صرف دولت جمع کرنا ،زکواۃ نا دینا ،غریبوں یتیموں کے حق پہ ڈاکہ مارنا ہی دراصل زلزلوں  کے اسباب ہیں۔
اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں
کیا پھربھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگۓ ہيں کہ ان پرہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اور وہ سو رہے ہوں ، اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگۓ ہیں کہ ان پرہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے اوروہ کھیل کود میں مصروف ہوں ، کیا وہ اللہ تعالی کی اس پکڑ سے بے فکر ہوگۓ ہیں تواللہ تعالی کی پکڑ سے نقصان اٹھانے والوں کے علاوہ اورکوئی بے فکر نہیں ہوتا ۔ 
الاعراف ( 97 – 99 ) ۔
زلزلے آنے پر ہمیں اپنی سر کشی سے گریز کرنا چاہیے اور اس عہد کے ساتھ کہ آئندہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہو ئے زندگی گزاریں گے۔ اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے کردہ گناہوں کی معافی بھی مانگنی جائے۔تو اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہمارا رب غفور و رحیم ہے اور اپنے بندوں کیلیے توبہ کے دروازے  ہمیشہ کُھلے رکھتا ہے اور افتیں بھی ٹال دیتا ہے۔تحریر : اے ٹویٹر ہینڈل :@chalakiyan 

Shares: