کورونا وائرس ہے اور ہم ہیں یارو تحریر: حافظ طلحہ ابو بکر

0
54

بیٹی سنو کیوں پریشاں ہورہی ہو ؟ ہر سال اس موسم میں ایسا ہی ہوتا ہے سارے کا سارا گھر بیمار پڑ جاتا ہے اور کوئی پانی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ دادی کی بات سن کر بیٹی خاموش ہوگئی۔ پہلے تو وہ کورونا کو ہنسی مذاق ہی سمجھتی رہی تھی کہ کورونا کی چھٹیاں ہیں اور مزے کرو اور کچھ نہیں۔ مگر روز روز کی بڑھتی چھٹیوں اور ہر قسم کی بندش نے اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیے تھے۔ اس طرح کے حالات میں نا تو وہ باہر جاسکتی تھی اور اگر کچھ باہر سے کھانے کو دل للچاۓ تو بس سوچ ہی سکتی تھی کیونکہ ہر چیز کورونا کی نظر ہوگئی تھی اور سب کچھ بند تھا

زندگی ایک نا ختم ہونے والے سخت مرحلے سے گزر رہی تھی گلیاں بازار شہروں کی رونق جیسے کسی طلسماتی جادو کے زیر اثر ہو گئی تھیں ہر طرف سکوت طاری تھا زندگی کی رمق جیسے کہیں کھو گئی ایسے تو کبھی نہ کسی کتاب میں لکھا گیا نہ کسی کہانی میں سنایا گیا خبروں میں ہر ٹی وی چینل پر  شرح اموات کی تعداد بتائی جاتی دنیا کا کوئی ملک اس خدائی آفت سے محفوظ نہیں رہا کورونا کا خوف حواسوں پر مسلط ہی تھا کہ اچانک اسکے والد کی طبیعت غیر ہونے لگی بھاگم بھاگ اسپتال لے کر گئی ڈاکٹرز نے فوری ٹیسٹ کیے رپورٹس آنے پر معلوم ہوا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا اسے

 کورونا کی سمجھ تب آئی جب اپنے والد صاحب کو اس نے حالت تکلیف میں اور تنہا بند کمرے میں قرنطينہ جیسے کرب سے گزرتے دیکھا گھر کی خوشی میں درد کا احساس شدت سے بڑھ گیا تھا  اور دو دن میں ہی اسکی حالت غیر ہوگئی تھی ہزاروں روپے کی ادویات ٹیسٹ اور زہنی طور پر تھکا دینے وآلہ اذیت ناک مرحلہ اسکے اعصاب جواب دینے لگے

بارہا احتیاط کے باوجود گھر میں کورونا وائرس پھیلا تو چند ہی روز میں اس کی ساری جمع پونجی ڈاکٹروں کی فیس اور دواؤں میں لگ گئی۔ ایک گھر میں صرف وہی تھی جو ابھی تک اس وائرس سے محفوظ تھی۔ اب صرف تسلیاں اور دلاسے ہی بچے تھےان تکلیف دہ مناظر کو دیکھ کر اسکا دل بے ساختہ کیا کہ زور سے چلا اٹھے

اور اس کی آواز میں درد عرش پر بیٹھے رب کریم کی بہت قریب سے سنائی دے

عجب دور سے گزر رہے تھے

 کھانے کا مزا ختم ، گھومنے کا مزا ختم ، پڑھائی کی سختیاں ختم اور جمع پونجی کا تو پوچھو ہی مت اب اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی تھی

حالات کی زد میں آنے والا اسکا خاندان واحد نہیں تھا سینکڑوں گھرانوں کی یہی آپ بیتی تھی 

 اور اب خدائی آفت اور اس ستم ظریفی کے مارے ہوئے لوگ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ "کورونا وائرس ہے اور ہم ہیں یارو” ۔

کپڑے شپڑے ہوئے ہیں مہنگے

مہنگائی کی پڑ رہی ہیں جوتیاں

ہوٹل شوٹل ہوئے ہیں بند

زبان کی چھن گئی ہیں لذتیں

اپنا اب کیا حال وال سنائیں تم کو

کرونا ہے اور ہم کرونا کے مارے ہیں یارو

دشمن جاں کو مات کر لیجے 

 چار دن احتیاط کر لیجے 

اپنے گھر کے حسیں مکینوں کو 

 اپنی کل کائنات کر لیجے

رحم خود پر اگر نہیں آتا 

اپنے بچوں کے ساتھ کر لیجے

کہ گھر بیٹھے یہ کوئی قید ہے 

جس سے جی چاہے بات کر لیجے

دل ملا لیجئے اجازت ہے

 دور لیکن یہ ہاتھ کر لیجے

فکر اپنی ہر ایک سے پہلے 

 کام ہے واہیات کر لیجے

آج موقع ہے مال و دولت کو 

 اپنی راہ نجات کر لیجے 

شاعر اس وبا کے بارے میں یہی کہنا چاہ رہا ہے 

خود سے پہلے اپنے پیاروں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے ہاتھ ملانے سے گریز کرنا چاہیے اور فاصلے پر رہ کر گفتگو کریں 

کورونا نے ایک بات سب کو بہت اچھے سے یاد دلا دی ہاتھوں کو بار بار دھونا 

گھر کو کپڑوں اور خود کی صفائی لازمی رکھنی ہے جانے انجانے ہم اپنی روایات سے بہت دور چلے گئے تھے تو آئیں اس مشکل اور تکلیف دہ کورونا کے دنوں میں اپنے گھر ،اور ملک کی حفاظت کو یقینی بنائیں ہماری چھوٹی سی کوشش بہت بڑے نقصان سے محفوظ رکھ سکتی ہے   

اپنے اِرد گرد دیکھیں اور اپنی بہت کم آمدنی اور اخراجات میں سے مستحکین کو شامل کریں کیوں جو آج ہم خرچ کریں گے روز آخرت ہمارا ذریعہ نجات بنے گا

 

 کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر

‎@talha_abubakar4

Leave a reply