یہ حقیقت ہے کہ دیہی اور شہری زندگی میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ دیہات میں ہر طرح کی قدرتی اور خالص غذائیں ہوتی ہیں۔ جو شہری عوام کو کہاں نصیب۔

دیہات میں صبح سویرے اٹھنا،چڑیوں کی چہچہاہٹ،لسی کو بلونے کی آواز کھیتوں کے اس پار سورج کا ابھرنے کا منظر یہ سب مزے صرف دیہات میں لئے جاتے ہیں جبکہ شہری عوام اکثریت جن کی ٹائمنگ مختلف یا دفتری اوقات دیر سے شروع ہوتے وہ سویرے اٹھنے کی زحمت کم ہی کرتے کجا اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں۔

جہاں یہ ساری قدرتی خوشیاں شہریوں کو نصیب نہیں ہوتیں وہاں شہری زندگی میں آپکو ہر طرح کی سہولیات ملیں گیں، بچوں کے مند پسند اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے علاوہ ایک آئیڈیل اور آسان زندگی گزارنے کے مواقع ملتے ہیں جو دیہات میں رہ کر حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ طلبا بھی اچھے اور معیاری کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا بزنس یا جاب حاصل کر لیتے ہیں جو انکا زریعہ معاش بن جاتا ہے جبکہ دیہات میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت کم مواقع ملتے ہیں۔ انٹرمیڈییٹ کی اگر کسی جگہ کلاسز ہیں بھی تو اتنی معیاری تعلیم نہیں ہوتی کہ آگے چل کر یونیورسٹی میں دوسرے طلبا کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔

سب سے اہم اور ضروری علاج و معالجہ کے لیے شہر میں ہر سہولت موجود ہے جبکہ گاوں میں یہ چیزیں بہت مشکل سے مینیج ہوتیں ہیں۔ اگر کوئی زیادہ بیمار ہو جاتا ہے تو کئی گھنٹے لگا کر شہر کے ہسپتال میں لایا جاتا ہے۔ کچھ مریض تو ایسے ہوتے ہیں جو صرف بروقت نہ لانے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں جو حقیقتا افسوس کن ہے۔ تاہم دیہات میں انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ بھی رہتا ہے جو شہر میں رہتے ممکن نہیں ہوتا۔

دیہات میں دھواں ،شور شرابہ،گاڑیوں کے چیخنے کی آواز ہارن کی صورت ،یہ سب نہیں ہوتا۔وہاں شہر جیسی اگرچہ سہولیات تو نہیں ہوتیں مگر سکون ہوتا ہے۔جبکہ شہروں میں ان تمام آسائشوں کی بہتات تو ہوتی ہے مگر سکون نہیں ہوتا۔وہاں چوپال کے نیچے ایک چارپائی پے بیٹھ کے جو حالات حاضرہ پہ گفتگو وہ بھلا شہروں میں کہاں ۔شہری زندگی کے اپنے فوائد ہیں۔وہ تمام آسائشیں شہروں میں موجود جس کے لئے دیہات میں رہنے والے خواہیش کرتے ہیں۔

یا شاید یہ انسان کی متنوع فطرت کی وجہ کہ جو اسے حاصل اس کی قدر نہیں اور جو حاصل نہیں اس کے پیچھے بھاگ کر اپنی جوانی،اپنا سکون ختم کرنا ہوتا ہے ۔

میرے نزدیک دونوں رہنے کے طریقے اپنی اپنی جگہ درست ہیں بس انسان قناعت کرنا سیکھ لے ۔دیہات میں سالہا سال دشمنیاں لوگ پال کے رکھتے ،اور جیسے موقع ملتا کسی کے گھر کا چراغ بجھا دیتے ،یہ سلسلہ پشتوں چلتا رہتا ہے ۔غیرت کے نام پہ کئ زندگیاں اجاڑ دی جاتی ہیں ۔

سو ہر جگہ کا اپنا لطف اپنا مزہ شہری دیہاتی زندگی کا کوئ موازنہ نہیں،بس قناعت کرنا سیکھ جائیں.

 

 

 

شہری اور دیہاتی زندگی میں سکون:تحریر: محمد کامران
@kamran_Pti

Shares: