تاریخِ عالم کی سب سے عظیم شخصیت کہ جن کے متعلق ربِ کائنات خود ثناء خواں ہیں:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ
ترجمہ: اورہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ
ترجمہ: یقیناً ہم نے آپ کو کوثر دیا ہے۔
کہیں مزمل تو کہیں مدثر کہہ کر مخاطب کیا:
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ
ترجمہ: اے کپڑے میں لپٹنے والے ۔
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ
ترجمہ: اے کپڑا اوڑھنے والے ۔
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا
ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالٰی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالٰی کو یاد کرتا ہے ۔
(سورۃ الأحزاب:33)
اللہ رب العزت نے انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ جس شخصیت کو ہادی و مرشد بنا کر بھیجا وہ پوری کائنات کے سب سے اعلی ترین ہیرو ہیں۔ تاریخ عالم میں اگر کوئی ایسا ہیرو تلاش کیا جائے جس کی پوری سیرت ہر دور کے انسانوں کے لئے جامعیت، کاملیت اور پورے جمال و جلال کے ساتھ موجود ہو تو ہزار ہا برس کی تاریخ میں ایک ہی ہادی و مرشد ایسے ہیں ان کی مثل نہ تو پہلے کبھی وجود میں آئی اور نہ آئیندہ ایسے کاملیت اور جامعیت کے اوصاف کسی انسان میں ہوں گے۔
سرمایہ حیات ہے سیرت رسولﷺ کی
اسرارِ کائنات ہے سیرت رسولﷺکی
بنجر دلوں کو آپ نے سیراب کر دیا
اک چشمہ صفات ہے سیرت رسولﷺ کی
تاریخ کے سب سے بڑے انسان اور سب سے بڑے ہیرو محمدﷺ بحثیت ایک شفیق باپ، مہربان شوہر، عظیم بھائی، بہترین فرمانبردار بیٹے، معزز شہری، قاضی، تاجر، جرنیل، منتظم و مدبر معلم انسانیت، اپنی خانگی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی میں عالمگیریت اور جامعیت کی بہترین مثال ہیں۔ آپﷺ کی ذات ہی میں وہ مکمل رہنمائی موجود ہے جس کا متلاشی ایک انسان اپنے تمام انفرادی اجتماعی معاشرتی مسائل کے حل، تمام تعلقات اور حقوق و فرائض کی ادائیگی کے لئے ہوتا ہے۔ تاریخ کے سب سے عظیم ہیرو محمد ﷺ ہی ایسے کامل ترین مصلح، رہنما اور پیشوا ہیں کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ کیسے آپ نے کچھ ہی عرصے میں گمراہی اور تاریکی میں ڈوبے جاہل انسانوں کی اصلاح کی۔
وہ بت پرست اور مشرک قوم کیسے خدا پرست اور موحد بن گئی؟
وہ جو ذلت کی پستی میں گرچکے تھے کیسے سب کی نظروں میں معزز ہوگئے؟
وہ جو چوری کو معمولی سمجھتے تھے کیسے خود پاسباں بن گئے؟
وہ جاہل لوگ کیسے مشہور عالم بن گئے؟
وہ ظالم اور سنگدل قوم کیسے عادل اور رحم دل بن گئی؟
یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد ہی تھی کہ جس نے یوں انسانیت کی کایا پلٹ کے رکھ دی۔
الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا!
اُتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نُسخہ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کُندن بنایا
کھرَا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب، جس پر قَرنوں سے تھا جہل چھایا
پَلٹ دی بس اک آن میں اُس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بَلا کا
اِدھر سے اُدھر پِھر گیا رُخ ہَوا کا
یہ آپﷺ کی ذات ہی تھی کہ جس پر اللہ کا دین ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے تکمیل کی آخری حد تک پہنچ گیا۔ اب قیامت تک کے لئے نہ کسی اور نبی کی گنجائش رہی نہ کسی اور دین کی۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
(سورۃ المائدہ: 3)
اللہ کے رسولﷺ ہمیشہ نرم برتاؤ کو پسند کرتے۔ آپﷺ سخاوت میں سب سے زیادہ سخی، جرات میں سب سے زیادہ قوی، بولنے میں صادق، لوگوں کی امانتوں کے معاملے میں امین اور زندگی کے ہر معاملے میں باریک بین، دور اندیش، نہایت شفیق ایسی حسین و جمیل شخصیت کے مالک تھے کہ:
حسنِ یوسف دیکھ کر کٹ گئی تھی انگلیاں
لاکھوں نے جانیں دی میرے نبیﷺ کے واسطے
آپﷺ کی فہم و فراست کا عالم یہ تھا کہ کوئی شخص آپﷺ کو دھوکہ نہ دے سکتا تھا۔ آپ کی ذاتِ اقدس کی ایک انگلی اٹھی تو چاند کے دو ٹکرے کر دئیے۔ سراقہ کو بددعا دی تو اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا اور پھر جب دعا دی تو وہی گھوڑا زمین سے واپس نکل آیا۔طائف کی بستی میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے مگر زبانِ مقدس سے بددعا تک نہ نکلی۔ رحمت و شفقت کا عالم یہ تھا کہ زید بن حارثہ آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کے لئے اپنے والد کو چھوڑنے پر راضی ہو گئے۔ پانچ سال کے عبد اللہ بن عباس کا دل چاہتا تھا کہ میں دیکھوں رسول اللہﷺ رات کی نماز کیسے پڑھتے ہیں، کیسے وہ پانچ سال کا بچہ آدھی رات کو اٹھ کر آپﷺ کے ساتھ نماز ادا کرنے لگا۔ آپ کی رحمت و شفقت بھرےتعلم کے سائے میں حضرت عبد اللہ بن عباس جیسے مفسرِ قرآن تیار ہوئے۔ جرنیل کی حثیت سے ایسے سپہ سالار تیار کئے کہ دنیا انہیں خالد بن ولید کے نام سے جانتی ہے، سچائی کا ایسا درس دیا کہ صدیق اکبر بنا دیا، ایسا عدل سکھایا کہ فاروقِ اعظم بنا دیا، سخاوت کی ایسی تربیت کی کہ سیدنا عثمان بنا دیا، اور مکتبِ شجاعت میں علی شیرِ خدا بنا دیا۔
آپ ﷺکا چہرہ مبارک لامتناہی تھا۔ اتنا حسین دلکش نورانی چہرہ اور اتنی نرم طبیعت کے مالک کہ ثمامہ جیسے نڈر بہادر جرنیل کو بھی جب آپ نے رہائی دی، جاتے ہوئے اس نے آپﷺ کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک دیکھی تو کہا اپنا بنا کر چھوڑ دیا”۔ آپﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبرو اور خوش خصال تھے۔ آپﷺ کی چشمِ مبارک بڑی اور بھنویں دراز تھیں۔ پیشانی مبارک کشادہ تھی۔ آپﷺ کے دانت روشن تر، آبدار اور کشادہ تھے۔ آپﷺ کبھی قہقہ لگا کر نہ ہنسے تھے۔ آپ ﷺکا کلام بے حد شیریں ہوتا۔ آپﷺ کے بال مبارک نرم تھے۔ آپ ﷺ جب چلتے تو ایسے جھک کر چلتے جیسے اوپر سے اتر رہے ہوں۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ چمک جاتا اور رخِ انور ایسے لگتا جیسے کہ وہ چاند کا ٹکرا ہے اور ہم آپ کی خوشی پہچان لیتے تھے۔
(صحیح بخاری: 3556)
بقول شاعر
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ﷺ ویسا نہیں کوئی
تم سا تو حسین آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی
یہ شان لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی
آج کے انسان کو دیکھیں تو وہ پریشان، بےچین، منتشر، اور مضطرب سی کھوکھلی حالت میں مبتلا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے محمدﷺ کو آخری رسول، تاریخ کا عظیم ہیرو اور کامل نمونہ بنا کر بھیجا اور انسانوں کو اپنے رسولﷺ کی پیروی کا حکم دیا ہے لیکن غفلت کے مارے انسانوں نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے ہیرو محمد ﷺ کی ویسے پیروی نہ کی جیسے اللہ نے حکم دیا۔ جس کے نتیجے میں شرک، بےحیائی، سنگدلی، خودغرضی، لالچ، خود پسندی، حرص و حوس اور ظلم انسانوں سے چمٹ گئے۔ ان سب امراض کا ایک ہی علاج ہے کہ ہم رسول ﷺ کی شخصیت کو عملی نمونہ بنا کر ایسے اعمال انجام دینے کے لئے کوشش کریں جس کے باعث کل قیامت کے دن آپ ﷺ کی شفاعت نصیب ہو جائے۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
از قلم نصرت پروین
@Nusrat_writes








