مہنگائی عالمی مسئلہ .تحریر : فضیلت اجالہ

bazar

عالمی وبا کورونا کے باعث روز بروز بڑھتی ھوئی مہنگائی کی لپیٹ میں پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی شامل ہے۔ جہاں ایک طرف مہنگائی سے پریشان غریب عوام کے لیے اشیائےخوردونوش خریدنا ناممکنات میں شامل ھوتا جا رہا ہے وہیں بغض عمران خان میں مبتلا اپوزیشن عالمی مسلے کو حکومت کی نا اہلی قرار دیتے ہوئے زاتی مفادات کے حصول کی خاطر معصوم عوام کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کر رہی ہے۔ابو بچاو اور کرپشن چھپاوں تحریک کو مہنگائی مخالف جنگ کے لبادے مییں چھپا کر انتشار کو ہوا دی جا رہی ہے۔
اس بات میں کوئ دو رائے نہیں کہ غریب عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے لیکن ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ پاکستان پیٹرول سمیت بہت سی اشیاء خوردونوش کیلیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتا ہے، کورونا کے باعث طلب و رسد کے واضح فرق اور نظام ترسیلات میں رکاوٹوں کے سبب ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے ،انتہائی ترقی پزیر ممالک جہاں کبھی مہنگائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا وہا ں بھی مہنگائی نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔

حالیہ مہنگے ہونے والے پیٹرول کی بات کریں تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات اور پیٹرول میں خود کفیل نہیں ہے ،عالمی سطح پر بارہ ماہ کی قلیل مدت میں پیٹرول کی قیمت میں 88.5 روپے اضافہ ہوا جس میں بتدریج اضافے کا امکان ہے جبکہ پاکستان میں اسی عرصے میں صرف 17.55% بڑھوتری ہوئ ہے ۔حکومت پاکستان اس وقت مجموعی قیمت 138 روپے میں سے صرف 14 روپے لیوی اور سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کر رہی ھے جو کہ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ می پیٹرول پر کم ترین ٹیکس ہے۔ نون لیگی ترجمان شاہد خاقان عباسی بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت بہت کم ٹیکس لے رہی ہے اور یہ بھی کہ اگر نون لیگ کی حکومت ہوتی تو پیٹرول کی قیمت موجودہ قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی۔
۔ جو لوگ عمران خان کے ماضی میں دیے گئے بیان ‘جب پیٹرول کی قیمتوں مین اضافہ ھو تو سمجھ لو حکمران چور ہے ‘ کو لیکر تمسخر اور تنقید کر رہے ہں انہییں یاد دہانی کرواتی جائوں کہ اس وقت پیٹرول کی قیمت اگر 100 روپے تھی تو اسمیں 52 روپے صرف لیوی اور سیلز ٹیکس کے تھے جب کہ پیٹرول کی قیمت صرف 48 روپے تھی۔ یعنی نصف سے بھی زیادہ رقم صرف ٹیکس کی مد میں موصول کی جاتی رہی ہے ۔

عالمی سطح پر گیس اور ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے کی شرح 135 % ہے جبکہ پاکستان میں قدرتی ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمتوں میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔

خوردنی تیل کے حوالے سے بھی جھوٹی خبریں چلا کر پراپیگنڈہ کرنے کی بھر پور کوششیں کی گئی جبکہ در حقیقت عالمی منڈی کے خوردنی تیل کے نرخوں میں 48% اضافہ پر پاکستانی حکومت نے صرف 38% اضافہ کیا ۔

سوشل میڈیا کے کچھ دانشور اس بات کا منجن بیچتے بھی نظر آئے کہ پیٹرول اور تیل تو باہر سے منگواتے ہیں اسلیئے مہنگا ہے تو باقی اشیاء زندگی کیوں مہنگی ہیں ؟ ان دانشوروں سے معصومانہ سوال ہے کہ گندم چاول اور کچھ دیگر اجناس کے علاوہ پاکستان کس چیز کی پیداوار میں خود کفیل ہے؟ پام آئل اور سویابین سے بناسپتی گھی بننے کہ باوجود ہمیں خوردنی تیل باہر سے منگوانا پڑتا ہے کیونکه پام آئل اور سویابین دونوں کی بہترین کاشت کا مرکز سندھ ہے جس پہ نا کسی گزشتہ وفاقی حکومت نے توجہ دینا مناسب سمجھا اور نا ہی مہنگائی پہ بھاشن دیتی بھٹو سرکار نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ بھٹوں کو زندہ رکھتے رکھتے سندھ کی عوام بیروزگاری بھوک اور افلاس کا کفن اوڑھے زندگی سے منہ موڑ چکی ہے ۔
وہ جماعت جو مہنگائی کی آڑ لیکر اپنی کرپشن بچانے کیلئے سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی ہے ان کے دور اقتدار کے گزشتہ دس سالوں میں مسلسل ڈی انڈسٹریلائزیشن ہوتی رہی لیکن نا تو اسحاق ڈار نے نوٹس لیا اور نا ہی نانی چار سو بیس کے دل میں عوام کا درد جاگا ۔

خشک دودھ، پنیر ،دہی سے لیکر گرم مصالحہ جات اور دالیں تک ہم دوسرے ممالک سے خریدتے ہیں ،گزشتہ دس سالوں میں کسان کی حق تلفی کر کہ ملکی پیداوار کو تباہی کہ دہانے پر پہنچایا گیا ، ملک میں موجود کھاد پیدا کرنے کا واحد ادارہ ایف ایف بی ایل کھاد کی ملکی ضروریات پیدا کرنے سے قاصر ہے جس کی کمی باہر سے او ڈی پی کھاد منگوا کر پوری کی جاتی ہے۔موجودہ حکومت نے کسان کی بحالی کیلئے احسن اقدامات کیئے ،کسان کارڈ کا اجراء کیا اور تمام فصلوں کے ریٹ مقرر کیئے تاکہ کسان خوشحال ہو .اپوزیشن پراپگینڈا کے برعکس حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت نے پاکستانی عوام کو ہر ممکن حد تک عالمی مہنگای کے اثرات سے بچایا ہے اور مزید کوششیں جاری ہیں ۔حکومتی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار کے لیئے کاشتکاری شروع کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کافی حد تک خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہوجائے گا ۔تحریک انصاف حکومت نے ملکی صنعتوں کی بحالی کا کام بھی شروع کیا ہے تاکہ پاکستان صرف باہر سے درآمد کرنے والی قوموں کی صف سے باہر نکل سکے، اس اقدام سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی استحکام ملے گا، حکومت کی موٴثر پالیسیوں کے سبب ترسیلات زر میں اضافہ خوش آئندہ ہے غیرملکی زر مبادلہ کے زخائر بتدریج میں بہتری آرہی ہے ۔ اس کے علاوہ اگلے ماہ کی 15 تاریخ سے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو ڈائریکٹ سبسڈی دی جائے گی،

حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس مہنگائی ک مقبلہ کرنے کیلئے مؤثر اقدامات کرنا ہونگے اور زرائع آمدن کو بڑھانا ہوگا ۔عمران خان کا وژن نسل در نسل سیاست نہیں عوام کی بقا ہے، وہ ووٹ یا اقتدار کے لالچ میں وقتی فیصلے نہیں کرتے بلکہ ایسے فیصلے اور اقدامات کر رہے ہیں جن کے نتائج مثبت اور دیر پا ہونگے، مشکل حالات ہیں لیکن میرے کپتان نے کبھی حالات کے سامنے سر نہیں جھکایا انشاء اللہ وہ پاکستان اور عوام کو مایوس نہیں کریں گے اور اس مشکل وقت کو بھی شکست دیکر پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے ،لیکن وقت لگے گا ۔

@_Ujala_R

Comments are closed.