مقصد انسانیت. تحریر : محمد اسامہ
.انسان الله تعالیٰ کی سب اعلیٰ اور افضل مخلوق ہے. انسان کو، "اشرف المخلوقات” بھی کہا جاتا ہے. اللّٰه تعالیٰ کو اپنی عبادت کیلئے فرشتے اور جنات کافی تھے. پھر بھی الله تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی تخلیق کی. انسان کو دنیا میں حاکم بنا کر بھیجا. یہاں تک کہ آگ سے پیدا ہونے والی مخلوق جنات کو بھی انسان کا احترام کرنے کا کہا گیا. انسان کو الله کی طرف سے دنیا کی ہر مخلوق سے برتری حاصل ہے.
> سوال یہ ہے کہ انسان جیسی مخلوق کی تخلیق کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟
قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی وضاحت ان الفاظ میں کی….
"انسان کو ہم نے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے”
الله تعالی نے انسان کی تخلیق اس انداز میں کی ہے کہ اس کا ڈھانچہ ہڈیوں کا ہے، اس جسم پر جو گوشت ہے وہ مٹی سے بنا ہے یا یوں کہیں کہ انسان کو مٹی اور پانی سے بنایا گیا ہے، انسان کو زندہ رہنے کیلئے پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اس خوراک کو حاصل کرنے کیلئے اسے تجارت کرنا پڑتی ہے، اس تجارت کیلئے اسے اپنا وقت اور صلاحیتیں لگانا پڑتی ہیں. اگرچہ انسان کو الله نے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے تو انسان کو تجارت، خوراک جیسی چیزوں سے بری ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ اپنی زندگی اور اپنی صلاحیتیں اللّٰه کی عبادت میں لگاتا.
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ایک ایسی مخلوق بھی ہے جو انسان کی پیدائش سے پہلے سے لے کر قیامت تک الله کی عبادت کرنے میں مشغول ہیں، نا انہیں خوراک کی ضرورت ہے اور نا ہی انہیں کسی تجارت کی ضرورت ہے بلکہ وہ دن رات اللّٰه کی عبادت کرتے رہتے ہیں. انہیں "فرشتے” کہا جاتا ہے. اسی طرح انسان کی پیدائش سے پہلے جنات بھی الله کی عبادت کرتے رہتے تھے.
> سوال یہ ہے کہ جب فرشتے اور جنات الله کی عبادت کرتے رہتے ہیں تو انسان کی تخلیق کیونکر کی گئ؟
تو جواب یہ ملتا ہے کہ انسان کو الله نے دنیا میں اپنا خلیفہ "جانشین” بنا کر بھیجا ہے. انسان کے ذمے یہ ہے کہ وہ دنیا میں الله کے احکامات کا نفاذ کرے. انسان کو کامل عقل یعنی عقل سلیم بنا کر بھیجا ہے. انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو جان سکے. اپنے نفع اور نقصان کے فرق کو جان سکے. انسان کو دنیا میں زندگی گزارنے کیلئے دو راستے دیے گئے ہیں. ایک اچھائی کا راستہ، دوسرا برائ کا راستہ. یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ کس راستے کو چنتا ہے. انسان کی پیدائش کے بعد سے اب تک دنیا میں مختلف مذاہب آۓ ہیں. ہر مذہب نے انسان کو اچھائی کے راستے پر چلنے اور برائی کے راستے کو چھوڑنے کی تعلیمات دی ہیں. اس دنیا میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب باطن ہوچکے ہیں، بلکہ اسلام کے کے علاوہ تمام مذاہب اپنی اصل کھو چکے ہیں. اس وقت اسلام ہی اپنی اصل میں قائم و دائم ہے. اسلامی تعلیمات کے مطابق اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ انسان کی تخلیق کیوں کی گئی ہے؟
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ انسان کو الله نے خاص اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے. مگر انسان کی تخلیق اس انداز میں کی ہے کہ وہ عبادت بھی کرتا ہے، خوراک بھی لیتا ہے، شادی بھی کرتا، تجارت بھی کرتا اور زندگی گزارنے کیلئے جو ضروریات ہیں انکو بھی پورا کرتا ہے. انسان کو اپنی زندگی گزارنے کیلئے ایک مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ہے. انسان کو سونے جاگنے، کھانے پینے، رہن سہن زندگی کے ہر لمحے کے طور طریقے بتلائے گئے ہیں.
اس دنیا میں انسان کی اہمیت یہ ہے کہ وہ مٹی اور پانی سے پیدا ہوا، اس کے جسم میں ایک دل دھڑک رہا ہے، جب اس کا دل دھڑکنا بند ہوجائے گا تو وہ اس دنیا سے کوچ کر جاۓ گا. اپنے ساتھ صرف اپنے اعمال لے کر جاۓ گا. اس ساری بات مقصد یہ ہے کہ موجودہ معاشرے میں انسان نے اپنے آپ کو دنیا کا مالک سمجھ لیا، اپنی زندگی کے خاتمے کو بھول کر صرف دنیا میں مگن ہوگیا ہے. ایک بناوٹی انسان بن گیا ہے، جو ضرورت کے تحت مسکراتا ہے، ضرورت کے تحت غصہ کرتا ہے، ضرورت کے تحت اپنا بناوٹی اخلاق پیش کرتا، ضرورت کے تحت عبادت کرتا ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ خلوص دل سے اپنا اخلاق پیش کرے. اس رویے کے پیچھے ایک ذہن سازی ہے، جو معاشرے میں کی گئی ہے، ہمارے معاشرے میں ایک بات زبان زد عام ہوچکی ہے کہ ہر انسان کی اپنی سوچ ہے وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزار لے. محترم قارئین/سامعین ہر انسان کی اپنی سوچ نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ہے جس کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہے. نا کہ اپنی سوچ، اپنے دل کے مطابق زندگی گزارنے کو کہا گیا ہے. ہمارے دل و دماغ ڈال دی گئی ہے کہ دنیا میں زندہ رہنا ہے تو معاشرے کے ساتھ برابر چلنا ہوگا. یہ نہیں سوچتے کے معاشرہ تو ایک اندھے کنویں کی طرف چل رہا ہے جہاں جا کر انسان کی فطرت انسانیت ختم ہوجاتی ہے، صرف دکھاوا بچ جاتا ہے. اس وقت معاشرے میں مختلف قسم بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں. کہاں سے آئے، کیسے آئے!!!
میں اس پر بات نہیں کرتا، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بطور انسان اور پھر مسلمان ہم کس جگہ کھڑے ہیں، معاشرے میں ہمارا کیا کردار ہے، معاشرے کی اصلاح کیلئے ہم اپنی زندگی کا کتنا وقت صرف کررہے ہیں، یہ تو نہیں کہ ہم بھی مسلمان ہونے کے باوجود اپنی اصل کو چھوڑ کر باطن میں دھنس رہے ہیں. ہمارے بزرگوں نے جو تربیت کی تھی اس کو بھلا کر نئے دور کے فتنوں کا شکار ہورہے ہیں. محترم قارئین یہ جدید دور کی ترقیاں فتنے ہیں.
@its_usamaislam