انسانی خواہشات اور زندگی تحریر: ابوبکر ہشام 

0
79

ہر انسان کے اندر خواہشات کا جنم لینا ایک فطری عمل ہے -اور اس حقیقت سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا کہ بنی نوع انسان کی خواہشات اُس کے ہوش سنبھالنے سے لے کر قبر میں اترنے تک جاری رہتی ہیں – 

دنیا کی رونقیں اور رنگینیاں دیکھنے کے بعد انسان کا اپنے اندر خواہشات کا سمندر لئے پھرنا اک عام سی بات ہے – اُس کی خواہشات عمر کے ہر حصے میں مختلف ہوتی ہیں ۔ وہ اپنا بچپن اس چاہ میں گزارتا ہے کہ وہ جلد بڑا ہو گا اور اپنے بڑھے بھائیوں کی طرح وہ سب کچھ کرے گا جو وہ کرتے ہیں ۔ اسی بات کا انتظار کرتے کرتے وہ وہ اپنی جوانی میں پہنچ جاتا ہے اور عمر اس حصے میں پہنچنے کے بعد اس کی تمناؤں کا جال پھیلتا ہی چلے جاتا ہے –

وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس اچھا گھر ہو  ، گاڑی ہو ، عزت ہو ، شہرت ہو ، رعب و دبدبہ ہو اور وہ سب کچھ جس کی وہ آرزو کرے ۔ 

وہ نا چاہ کر بھی ان خواہشات کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے – اور انکی طلب میں وہ اپنی زندگی گزار دیتا ہے – لیکن اس کی خواہشات نہ تو کم ہوتی ہیں اور نہ کہ ختم – یہ بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ایک چیز کو حاصل کرنے کے بعد دوسری کی تمنا رکھنے لگتا ہے – وہ چاہتا ہے کہ اگر اس نے اپنے کاروبار سے سو کڑوڑ کما لیا ہے تو وہ اب مزید سو کڑوڑ کیسے کمائے – غرض یہ کہ انسان کی خواہشات اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی حوس اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی – 

اس ساری کشمکش کے دوران انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے ایک دن مرنا بھی ہے – اِس کاسب کچھ ادھر دنیا میں اس کے ساتھ دفن ہو جانا ہے -اس دنیا کی محبت اور رنگینی اُسے اس قدر اپنے اندر جکڑ لیتی ہے کہ اسے یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ اگر میں ہی نہ رہا تو میری یہ سب دنیاوی تگ و دو کس کام کی ؟ 

اس مختصر زندگی میں جس کے اگلے لمحے کا کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ اس نے زندہ بھی رہنا ہے یا نہیں وہ ایسے منصوبے بناتا ہے کہ جیسے اسے مرنا ہی نہ ہو ۔ لیکن حقیقت اس کے باکل برعکس ہے – اللہ قرآن کریم میں اشاد فرماتے ہیں : 

‏كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ

‏ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے

‏آل عمران 3-185″

انسان کااپنی خوہشات کے آگے بے بس ہونے کی ایک بڑی وجہ اللہ کے دئیے ہوۓ پر صبر و شکر ادا کرنے کی بجائے لالچ و ہوس میں مزید کی طلب رکھنا ہے – 

انسان کی زندگی تو ختم ہو جاتی ہے لیکن اسکی خواہشیں مرنے تک اُس کے ساتھ رہتی ہیں – انسان کی خواہشات اور لالچ و حوس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : 

اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہو تو وہ تیسری کا خواہشمند ہو گا اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی – اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو (دل سے ) سچی توبہ کرتا ہے ۔ 

(صحیح بخاری ۶۴۳۶)

بعض اوقات خواہشات انسان کے اندر اس قدر بے چینی اور اضطراب کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں کہ وہ ان کی آرزو میں ہر جائز اور ناجائز ذریعہ بھی استعمال کر لیتا ہے – اس کی سوچ ، اُس کے خیالات ہر وقت صرف اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ وہ کسی طرح ان کو پورا کرے لیکن انسان کی یہ خواہشات اُس کا پیچھا مرنے تک نہیں چھوڑتی اور شاید ان سے نجات اور انسان کے دل کو سکون موت کے بعد ہی ملتا ہے ۔ بقول غالب 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے 

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکل

Leave a reply