خط بنام ،وزیرِ اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ،
جناب عمران احمد خان نیازی

اگر آپ قدیم دور کے بادشاہ ہوتے یا پھر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تو میں جان کی امان چاہ کر کچھ عرض کرتا… مگر مجھے امید ہے ساری زندگی تنقید کی تحریک چلانے والا اپنے ہی عوام کی بے لاگ باتیں ضرور سنے گا… اعلامیے اور بیانیے کے مطابق آپ ہمارے ووٹوں سے ہمارے لیے اقتدار میں آئے تھے… آپ اپنی شاہانہ و خانگی زندگی تج کر قریباً دو دہائیاں عوام الناس کے لیے متحرک رہے… ہر طرح کے مسائد و نامسائد حالات سے گزر کر آپ نے بمشکل تمام یہ منصبِ اعلیٰ پایا ہے… اس پچیس سالہ سفر میں آپ اکیلے نکلے ضرور تھے مگر اکیلے رہے نہیں… تب آپ کا حوالہ چراغ تھا… روشنی کی طلب میں لوگ جوق در جوق آپ کے ساتھ آتے گئے… خالص نظریات کی بنیاد پر لوگ آپ پر اعتبار کرنے لگے کہ سیاسی سماجی معاشی نا انصافی کے جوہڑ میں تیس تیس سال سے اقتدار سے چمٹی ہوئی جونکیں ملک و ملت کا خون چوس رہیں ہیں ان جونکوں سے نجات آپ دلا سکتے ہیں…

پستی میں گھرے ہوئے عوام نے آپ کو ہر طرح سے طاقت بخشی وہ شوکت خانم ہسپتال کا معاملہ ہو یا سیاسی تحرک کا… آپ نے اسلامی شعائر اور معائیر کو اپنی گفتگو کی زینت بنانا شروع کیا تو سیاست سے غیر متعلق قال اللہ و قال رسول اللہ ﷺ کی گردان کرنے والے بھی آپ کی جانب لپکے آپ کو طاقت فراہم کی… پھر آپ کے بیانیے کو فروغ اور ابلاغی سطح پر رائج کرنے کے لیے ہزاروں کارکنوں اور لاکھوں رضاکاروں نے اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا وقت اور سکون خرچ کرکے محاذ مکمل گرم رکھا…

جلسے ہوں یا دھرنے یہ سب آپ کے لیے لڑ بھڑ جاتے تھے… اس لیے کہ یہ سب عامۃ الناس گزشتہ ادوار کے رہبر و رہزن کے ستائے ہوئے تھے… عوام اس غلیظ مسلط شدہ سیاسی نظام اور مقتدر پارٹیوں سے نجات چاہتے تھے… آپ نے اسے سونامی کا نام دیا کہ سب خس و خاشاک کی طرح اڑا کر رکھ دیں گے… پھر تبدیلی کا خواب دکھایا کہ تعبیر امید کی سحر کی طرح روشن ہے… بعد ازاں آپ نے سات ملکوں کی معاشی و سماجی معیارات پر عوام کو ترغیب دلائی… بالآخر یہ تحریک ‘ ریاستِ مدینہ ‘ کے نعرے پر منتج ہوئی اور آپ اقتدار کے تخت پر براجمان ہوئے… عامۃ الناس نے دن گننے شروع کر دیے کہ اب ان کے حق میں فیصلے ہوں گے اب ان کی زندگیوں میں بہتری آنا شروع ہوگی… ہوا وہی کہ بیٹی بیاہنے کے بعد بسانی بھی پڑتی ہے… اب آپ کے اقتدار کا چوتھا سال جاری ہے…

جناب وزیرِ اعظم…
آپ کی محنتِ شاقہ ہو یا آپ کی طلسماتی شخصیت اس کا احاطہ کرنا محض ایک خط میں ناممکن ہے… کتاب ہی درکار ہوگی اس عرصہ کے خد و خال اور اتار چڑھاؤ بیان کرنے میں… قصہ مختصر یہ کہ اقتدار کے حصول کے بعد آپ انہی عوام سے الگ ایک محدود گنبدِ بے در میں مقید ہوگئے… جہاں آپ کے ساتھ کھڑے رہنے والے عوام کی آہیں سسکیاں آوازیں نہیں پہنچ سکتی ہیں… آپ کو منظر دکھانے والی آنکھیں اور پکار سنانے والے کان بھی عامۃ الناس سے نہیں بلکہ مخصوص اشرافیائی اور اشرافیائی سوچ کے پروردہ ہیں… ریاستِ مدینہ کی بنیاد جن خطوط پر استوار ہے ان میں لنگر خانے نہیں ہیں بلکہ مواخات مساوات عدل اور انصاف ہے… لنگر خانے خانقاہی سلسلہ ہے جو مقتدر حلقے نہیں تھے بلکہ عام لوگوں میں رہتے تھے… مدینہ کی ریاست کا کام ایسا مربوط مضبوط انتظامی ڈھانچہ ہے کہ جس میں لنگر خانے کی نوبت ہی نہ آئے…

آپ نے کہا فرات کے کنارے کتا بھی مرجاتا تو حاکمِ وقت جواب دہ ہوتا تھا… سیدنا عمرؓ یعنی وقت کے خلیفہ سے کُرتے کی بابت سوال ہوتا تھا… آپ یہ سب باتیں عوام کے دماغوں میں راسخ کرنے کے بعد تخت پر تشریف فرما ہوئے تھے… مگر معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ آپ کے گرد افسر و نوکر شاہی ہو یا بہی خواہی کا مسلط طبقہ انہوں نے عام آدمی سے سوال کا حق بھی چھین لیا ہے… آپ عالمی مُحلوں کے جھگڑے نمٹانے میں اپنی شناخت تو بناتے چلے گئے مگر اپنے ہی ملک کے باسیوں کے مسائل کی طرف سے آپ کی توجہ معدوم ہوتی چلی گئی… اقتدار کے حصول کے بعد اپنی حکومت کی ہر کوتاہی کمزوری اور خرابی کو گزشتہ حکومتوں کے سر منڈھ کر چار سال آپ کی حکومت کو بھی ہونے کو ہیں… کبھی اٹھارہویں ترمیم کی یاجوج ماجوج کی فصیل کے پیچھے چھپنا تو کبھی دو تہائی اکثریت نہ ہونے کا رونا رونا… کبھی بیوروکریسی کی اکڑیں تو کبھی میڈیا کے جھوٹ کا واویلا… کبھی کچھ تو کبھی کچھ…

کورونا کی تو خیر دوسری سالگرہ ہے اقتدار سوا سال مزید پہلے کا ہے… حالانکہ سارے دعوے دلیلیں پوری تحریک اور الیکشن کمپین میں مشروط نہیں تھے کہ اٹھارہویں ترمیم ہوئی تو یہ وعدے کارآمد نہ ہوں گے… دو تہائی اکثریت نہ ہوئی تو قانون سازی نہ کروں گا… فلاں قانون اور فلاں عالمی تناظر اور فلاں معائدے… عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد آپ کے تقرر کردہ تمام ترجمان آپ کے تئیس سالہ بیانیے کو غلط ثابت کرنے پر مصر ہیں… ہر بار نئے بے تکے دلائل اور اس اگلی بار مزید نئے… یوں اعتبار کے دھاگے کچے ہوتے جارہے ہیں… سارا ملبہ مافیا مافیا کہہ کر پچھلوں پر ڈال دینا آسان راستہ ہے… مہنگائی عالمی مسئلہ ہے مانتے ہیں ہم… مگر بد انتظامی نا اہلی تو داخلی معاملہ ہے اور اس میں آپ اور آپ کے متعین کردہ وزیر مشیر مکمل ناکام ہیں… عالمی تغیرات و تبدل سے مہنگائی اگر سات فیصد بڑھی ہے تو بد انتظامی بلکہ بے انتظامی کی وجہ سے ایک سو سات فیصد بڑھی ہے… آپ کے پونے دو کروڑ ووٹرز اب روبوٹ بننے سے تو رہے کہ مزید چارج کیا اور کام چل گیا۔۔۔ سوال کرنا سکھایا ہے تو جواب دینا آپ اور آپ کی حکومت پر فرض ہے… سوال کا گلا گھونٹنے سے وہی فکری نسلیں پروان چڑھیں گی جن کے خلاف آپ نے دو دہائیاں سدھار کی کوشش میں گزار دیں ہیں… آپ کا کہنا تھا کہ اوپر اگر کپتان ٹھیک ہو تو پوری ٹیم کو ٹھیک کر دیتا ہے… آپ کی تو ٹیم ہی ٹھیک نہیں ہوئی ملکی انتظامی انصرامی حالات تو کجا…

جناب وزیرِ اعظم پاکستان
آپ کے بقول دو لاکھ میں ماہانہ میں آپ کا گزارا نہیں ہوتا تو سوچیئے کہ ملک کی تین چوتھائی سے زائد آبادی کی تخواہ بجٹ میں کم از کم بیس ہزار رکھی گئی ہے (ہر چند وہ بھی ملتی نہیں ہے) جو آپ کے دو لاکھ سے بیس گنا کم ہے… ریاستِ مدینہ میں خلیفہ اول ابوبکر صدیقؓ کی تنخواہ طے ہونے کا واقعہ آپ نے سن ہی رکھا ہوگا… اس میں تو کوئی آئین اور قانون آڑے نہیں آتا… اپنی تنخواہ عام مزدور کی اجرت کے برابر کر لیجیے شاید آپ کو حقائق کا علم ہو کہ ملک کی اکثریت کس حال میں ہے… آقائے دوجہاں کی مثالیں دیتے ہوئے خندق کا ذکر بھی آپ نے ہی کیا تھا… عام اصحاب کے پیٹ پر اگر ایک پتھر تھا تو سرکار ﷺ کے شکمِ اطہر پر دو پتھر بندھے تھے… ریاستِ مدینہ کے اصول کے تحت آپ اور آپ کی کابینہ بھی اس سنتِ نبوی ﷺ سے ابتدا کیجیے… یاد رکھیں دلائل (فیکٹس اینڈ فیگرز) پیٹ نہیں بھرتے ہیں… کیا آپ نہیں جانتے کہ عسرت کفر کے قریب لے جاتی ہے… کیا آپ نے نہیں کہا تھا کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں… خان صاحب وجہ کچھ بھی ہو… لوٹا ہوا پیسہ آپ واپس نہیں لاسکے… انتظامی امور میں آپ ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں کہ وفاق صرف اسلام آباد ہے اور باقی اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملات…

ہم مہنگائی بد انتظامی پر بات کریں تو آپ کے گرد جال بننے والا اشرافیہ حصار اور اس جال پر بیٹھے بد دیانت فکری منافق شکاری مکڑے فرماتے ہیں کہ ایک کما کر گھر پورا نہیں ہوتا تو چار کماؤ… ٹماٹر نہ کھاؤ پیٹرول نہ خرچ کرو… بجلی نہ خرچ کرو… انہی انقلاباتی تحاریک کا ذکر پر جو آپ کیا کرتے تھے جب بل جلا دو اور ٹیکس نہ دو کے نعرے لگائے گئے تھے… وہ سب کچھ آپ اور آپ کے مصاحبین کیسے بھول جاتے ہیں… خیر قصہ کوتاہ مدعا بتصریفِ وقت… تحریکِ انصاف سے ہمارا پہلا انصاف کا مطالبہ ہے کہ ہم آپ کے ووٹرز ہیں اس سے بڑھ کر ہم پاکستان کے عوام ہیں ہم سے بلا تفریق جبراً نچوڑے ہوئے ٹیکس پر وزیروں مشیروں مصاحبوں کی مظفر موج کی عیاشیاں ختم کی جائیں ان کو ملنے والی تمام مراعات واپس لی جائیں ان کے فون پیٹرول گاڑی یوٹیلٹی بلز سکیورٹی سب واپس لی جائے… ان کو اس حال میں لایا جائے جس میں یہ الیکشن کی مہم میں تھے… ہم سے نچوڑے ہوئے ٹیکس پر ان کے کام کیا ہیں ماسوائے ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھنے پریس کانفرنسیں کرنے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے نتھنوں میں پھونکیں مارنے کے…

وزیرِ اعظم صاحب ہمارا غم و غصہ ان سطور میں سما نہیں سکتا… سلسلے بہت دراز ہیں لاکھوں دلیلیں اور جواز آپ کی حکومت کی نااہلی کے خلاف ہیں ہمارے گلے دبانے اور ہمیں آنکھیں دکھانے سے ہماری آوازیں کم نہیں ہوں گی… یہ خط بھی آپ کے دعووں کا امتحان کے کہ وقت کے خلیفہ سے جواب طلب کیا جاسکتا ہے اور سائل کی طرف سے جواب طلبی کی راہ میں کوئی مصاحب یا وظیفہ خوار نہیں آئے گا… عمران خان صاحب جھوٹ اور چاپلوسی کے شہتیر دیوار اور چھت دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں حکومت کے حق میں صرف وہی بول رہے جن کے کالے دھن کے سامنے یہ مہنگائی بد انتظامی بد سلوکی رائی کے برابر ہے یا پھر امید کے کشکول سنبھالے پھرتے ہیں… مرسڈیز میں سفر کرنے والا جب چنگچی میں سفر کرنے والے پر فیصلے دے گا اور اس کا تمسخر اڑائے گا تو معاشرہ اشتعال کی حدوں سے نکل کر انارکی کی طرف چلا جاتا ہے… موجودہ حکومت اسی اصول کے تحت گزشتہ حکومت کے بعد اقتدار میں آئی تھی…

وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی

ہمارے پاس لکھنے کو اتنے دلائل حکومت کی کمزوری نااہلی اور اشرفیائی عیاشی کی بنیاد پر ہیں کہ دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں ہماری اس تھوڑی سی ہی عرضی سے اندازہ کر لیجیے… عام عوام (اشرافیہ بالا دست طبقہ ہرگز ہرگز نہیں) کے مسائل کو سمجھیں… اونٹ کے منھ میں زیرہ دینے سے کچھ حاصل نہیں نہ ہی تھپکیاں دینے سے گرد بیٹھتی ہے… قربانیاں اب آپ دیں… حکمران قربانیاں دیں … عوام لاغر اور مردار ہونے کے قریب ہے اسے ذبح نہ کریں… حکومتی اللے تللے ختم کیے جائیں اور عام (ستاسی فیصد) غریب کی سطح پر آئیں… یہ کیا کہ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں… وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے جناب… تحریکِ انصاف کی حکومت کے پہلے انصاف کی اینٹ رکھیں تاکہ عوام کو معلوم ہو اور یقین ہو کہ مہنگائی عالمی وجہ سے ہی ہے… ہم نے آپ کی حکومت کی طرح راستے میں پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر دیوار نہیں حائل رکھی ہم معاشرے میں مثبت رویوں کے قائل ہیں سو مکالمہ کی سطح پر آپ کی حکومت کا کوئی بھی نمائندہ ہم سے بات کر سکتا ہے…

والسلام
از: ملکِ خدا داد پاکستان کا ایک باسی
مملکتِ پاکستان کے عوام کا اور حکومت کا خیر خواہ

م ۔م ۔مغلؔ
Twitter @Mughazzal

Shares: