فیس بک نفرت اور تشدد کا بیج بونے لگی. تحریر: عفیفہ راؤ
انڈیا کا مقابلہ اگر پاکستان سے کیا جائے تو وہ رقبے کے لحاظ سے ہم سے کافی بڑا ہے اس لئے وہاں کی آبادی بھی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اور آجکل زیادہ آبادی کا مطلب ہے بہت بڑی مارکیٹ ۔ لیکن اسی مارکیٹ میں بزنس سے زیادہ نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ ہندوتوا سوچ کو بڑھانے کے لئے ہندو انتہا پسند ہر حد پار کرتے جا رہے ہیں۔ ویرات کوہلی، عامر خان سے لیکر ایک عام بریانی والا تک ان سے محفوظ نہیں ہے۔
مودی سرکار اپنی اس بڑی مارکیٹ کو کس طرح سے کیش کروارہی ہے۔ کیسے بڑے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی اپنی انتہا پسند سوچ کے پھیلاو کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور یہ کمپنیز بھی ایسا ہونے دے رہی ہیں کیونکہ ظاہری بات ہے ان کا مطلب صرف اپنے بزنس اور منافع سے ہے۔ لیکن نقصان کی بات یہ ہے کہ ان کی خاموشی اور مودی سرکار کا ساتھ دینے کی وجہ سے انڈیا میں اب نفرت اور انتہا پسندی اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے کام کرنے والوں کے لئے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ بی جے پی۔ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے حامی لوگوں کے دماغوں میں اب یہ بات پوری طرح بیٹھ چکی ہے کہ جب بڑی بڑی کمپنیوں سے ہم اپنی بات منوا لیتے ہیں تو چھوٹے کاروبار کرنے والوں سے بات منوانا کیا مشکل ہے جس کی وجہ سے حالات یہ پیدا ہوتے جا رہے ہیں کہ انڈیا میں اس دیوالی پر جشن سے زیادہ سوشل میڈیا ٹرولنگ ہوتی رہی ہے کبھی کسی سٹار کی کبھی کسی برانڈ کی۔ یعنی انڈین عوام جو مذہب کی بنیاد پر تقسیم تو تھی ہی لیکن اب زبانوں اور کھانوں پر بھی مذہب کے ٹیگز لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں کافی عرصے سے حکومت فیس بک جیسے پلیٹ فارم کو اپنی مرضی سے استعمال کر رہی تھی وہیں اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے یہ انتہا پسند اس قدر بے لگام ہو چکے ہیں کہ اب کوئی ان کی اجازت کے بغیر بریانی بھی نہیں بیچ سکتا۔ مسلمان تو مسلمان عیسائیوں اور سکھوں پر بھی زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں یہ انکشاف ہوا کہ سب سے بڑی سوشل میڈیا کمپنی فیس بک استعمال کرکے لوگوں میں نفرت اور تشدد کا بیج بویا گیا جبکہ انسانوں کے سمگلرز نے لوگوں کو پھانسنے کے لئے فیس بک کااستعمال کیا۔ فیس بک اور اس کی دیگر ایپس نہ صرف بچوں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ جمہوریت کو بھی کمزور کرتی ہیں۔ 17میڈیا ہاؤسز کا ایک کنسورشیم ہے جس نے فیس بک کی یہ متنازع پالیسیاں بے نقاب کرنا شروع کی ہیں۔ اور فیس بک پر یہ الزام کسی اور نے نہیں بلکہ فیس بک کی ہی ایک Ex-employ Frances Haugen
نے لگایا ہے بلکہ اس نے فیس بک سے Resignبھی اسی لئے کیا کہ فیس بک Hate speech and voilenceکو پروموٹ کرتی ہے۔ اور یہ صرف الزام نہیں ہے بلکہ اس نے پروف کے طور پر ہزاروں ڈاکیومنٹس بھی پیش کئے ہیں جن کوان میڈیا ہاوسز کے کنسورشیم نے Studyکیا۔ امریکی کانگریس اور برطانیہ کی پارلیمنٹ دونوں کے سامنے یہ پیش ہوئی ہیں۔ جہاں اس نے فیس بک پلیٹ فارم کے اثرورسوخ کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور خبردار کیا کہ اس کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو دنیا میں مزید فسادات اور نسل کشی کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ ان ڈاکیومنٹس کے مطابق چھ جنوری کو امریکی کیپیٹل ہل پر سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ اور میانمار اور ایتیھوپیا جسے ممالک میں ہونے والی نسل کشی جیسے واقعات میں تو فیس بک کا ہاتھ ہے ہی لیکن پاکستان اور انڈیا کے حوالے بھی جو Factsان ڈاکیومنٹس میں سامنے آئے ہیں وہ کافی خطرناک ہیں۔ فروری دو ہزار انیس میں ایک ریسرچرز کی ٹیم نے ایک Dummy account createکیا انڈین یوزر کا Experienceمعلوم کرنے کے لئے۔ اس اکاونٹ میں خود سے کوئی فرینڈز نہیں تھے نہ ہی کوئی Prefrences set کی گئی تھیں تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ فیس بک خود سے اس اکاونٹ کو کیا Recommendکرتی ہے۔ اور تین ہفتوں تک اس اکاونٹ کی ٹائم لائن پرجو کچھ سامنے آیا وہ کافی حیران کن تھا۔ اس اکاونٹ کی ٹائم لائن پر جو کچھ فیس بک الگورتھم کی وجہ سے Recommend کیا گیا اس میں زیادہ تر فیک نیوز، اشتعال دلانے والا اور نفرت پھیلانے والاContentتھا۔ یہاں تک کہ مرے ہوئے لوگوں کی ایسی تصاویر بھی تھیں جن کے سر تن سے جدا تھے خون خرابہ ہوا ہوا تھا اس کے علاوہ پورن مٹیریل بھی دکھایا جا رہا تھا۔ یہ اکونٹ ان دنوں میں بنایا گیا تھا جب پلوامہ حملہ ہوا تھا تو اس انڈین یوزر اکاونٹ کو وہ فیک نیوز اور Images
دکھائے جا رہے تھے جو کہ پاکستان کے خلاف تھے۔ ایسی پوسٹ تھیں جن میں پاکستانی عوام کو گندی گالیاں دی گئیں تھیں۔
فیس بک کی طرف سے کہا گیا کہ انھون نے اس ریسرچ ٹیسٹ کے بعد اپنے الگورتھم میں کافی تبدیلیاں کی تھیں۔ یہ بات ایک حد تک تو درست ہے کہ فیس بک نے تبدیلیاں کیں فیک نیوز کو کاونٹر کرنے کے لئے کافی بجٹ خرچ کیا گیا لیکن اس میں بھی فیس بک نے Fair dealنہیں کی۔ فیک نیوز کے خلاف جتنا بجٹ تھا اس کا 87%تو صرف امریکہ پر خرچ کر دیا گیا باقی کا
13%دوسرے تمام ممالک پر خرچ کیا گیا۔ اور دوسری بات یہ کہ ہندی اور بنگالی کے خلاف فیس بک کی طرف سے Classifiersبھی نہیں Createکئے گئے جو کہ ان زبانوں میں فیک نیوز کو
Detectکرسکیں۔ ان میں سے کچھ الگورتھم اب دو ہزار اکیس میں بنائے گئے ہیں لیکن یہ ابھی بھی مکمل نہیں ہیں کیونکہ انڈیا میں فیس بک بیس زبانوں میں استعمال کی جاتی ہے اور
Classifiersصرف پانچ زبانوں کے موجود ہیں۔ جس کا انھوں نے یہ حل نکالا کہ پندرہ ہزار لوگوں کی ٹیم بنا دی جو خود سے فیس بک پوسٹس کو چیک کرتے ہیں کہ کہیں یہ فیک نیوز تو نہیں ہے یا پھر Hate speech and voilenceتو نہیں پھیلا رہے۔ اور یہ ہی فیس بک کا وہ کام ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا کیسے فیس بک کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور فیس بک ایسا ہونے بھی دے رہا ہے۔ کیونکہ ان کی یہ ٹیم ان پوسٹس کو فلیگ ہی نہیں کرتی جو کہ آر ایس ایس بجرنگ دل اور بی جے پی کی طرف سے کی جاتی ہیں جو کہ زیادہ تر پاکستان کے خلاف ہوتی ہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتی ہیں۔ اور اس کی وجہ Political senstivitiesبتائی جاتی ہیں یعنی اگر فیس بک نے ان گروپس کی پوسٹس ہٹائیں تو انڈین حکومت کی طرف سے ان پر پابندیاں لگ جائیں گی اور ان کا بزنس متاثر ہو گا۔ اس پر انٹرنیشنل میڈیا میں بھی کئی آرٹیکلز لکھے گئے جس میں انڈیا اور فیس بک کی اس ملی بھگت اور دو نمبری کو ایکسپوز کیا گیا لیکن آج تک اس کا کوئی حل نہیں ہو سکا کیونکہ فیس بک کے لئے بات پیسے اور بزنس کی ہے اور مودی سرکار ویسے ہی پاکستان کے خلاف کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔
اور صرف پاکستان ہی نہیں مودی سرکار اور انڈیا میں موجود دوسری انتہا پسند تنظیمیں انڈین مسلمانوں اور دوسری اکثریتوں کے بھی خلاف ہیں وہ انڈیا کو صرف ہندو دیش بنانا چاہتے ہیں۔
اور اب انتہا پسندوں کی ایک کی اور کارستانی بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ انتہا پسند اس قدر بے لگام ہو چکے ہیں کہ اب کوئی ان کی اجازت کے بغیرانڈیا میں بریانی بھی نہیں بیچ سکتا۔ سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے کہ کیسے نئی دلی میں ایک ہندو انتہا پسند شخص بریانی بیچنے والے کو دکان بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ نئی دہلی میں سانت نگر کا علاقہ ہے جہاں یہ واقعہ ہوا۔ اس انتہا پسند شخص کا نام نریش کمار سوریاونشی ہے جو خود کو انتہا پسند بجرنگ دل کا کارکن بتا رہا ہے۔ اور یہ شخص بریانی بیچنے والے سے کہتا ہے کہ یہ ہندوؤں کا علاقہ ہے اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ یہاں بریانی بیچے اور ساتھ ہی اسے دکان بند کرنے کی بھی دھمکی دیتا ہے گالیاں بھی دیں اور کہا کہ تم نے دکان کیسے کھولی؟ کس نے تمھیں اس کی اجازت دی؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ہندوؤں کا علاقہ ہے؟ اس نے یہ بھی کہا کہ ’آج دیوالی ہے، اس دکان کو بند کرو، تم کیا سوچ رہے ہو؟ کیا یہ تمھارا علاقہ ہے؟ کیا یہ جامع مسجد ہے؟ یہ مکمل طور پر ہندوؤں کا علاقہ ہے۔ جس کے بعد دکان میں کام کرنے والے اس میں لگی میز اور کرسیاں اٹھاتے ہیں اور دکان بند کر دیتے ہیں۔
ویسے تو انڈیا میں ایسی کارروائیاں نئی بات نہیں بلکہ روز کا معمول بن چکی ہیں لیکن اس دیوالی پرایسے واقعات کچھ زیادہ ہی ہوئے ہیں۔ پہلے ویرات کوہلی نے کہہ دیا کہ وہ دیوالی منانے کی کچھ ٹپس شیئر کرنا چاہتے ہیں تو اس کو ٹرول کیا گیا۔ پھر فیب انڈیا کو ان کی جشن ریواز کے نام سے لانچ کی گئی دیوالی کی نئی کولیکشن کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا کہ ہندو تہوار کے لئے اردو نام کیوں؟ پھر عامر خان کو ٹرول کیا گیا ان کے اشتہار کی وجہ سے جس میں عامر خان نے یہ کہا کہ پٹاخے سوسائٹی میں بجائیں سڑکوں پر نہیں۔ لیکن ان کو یہ کہہ کر ٹرول کیا گیا کہ مسلمان سڑک پر نماز پڑھیں تو وہ نہیں بولتے پٹاخے سڑکوں پر کیوں بج رہے ہیں بس یہی نظر آتا ہے۔ اور اس کے بعد اب بریانی والی ویڈیو یعنی اب کپڑوں، زبان اور کھانوں پر بھی مذہب کے ٹیگ لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسی مثالیں آئے دن سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی انڈیا میں نفرت انگیز سلوک بڑھتا جا رہا ہے۔ جس پر کسی عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے کی توجہ نہیں ہے انہوں نے اپنی آنکھیں مکمل طور پر بند کر رکھی ہیں لیکن اگر مودی سرکار اسی طرح نفرت پھیلنے دیتی رہی تو ایک دن آئے گا جب پوری دنیا کو یہ سب دیکھنا بھی پڑے گا اور مودی سراکر سے اس کا جواب بھی مانگنا ہو گا۔