جارج نے ایسے منہ بنایا جیسے اسے باپ کی بات پر اعتماد نہ ہو۔ اس نے جارج کی طرف دیکھ کر سر ہلایا جیسے اپنی بات
کی سچائی پر اصرار کر رہا ہو۔
کتنی مزے کی بات ہے کہ آج تم میرے پاس آئے، یہ پوچھے کہ کیا دوست کو اپنی منگنی کے بارے میں
لکھوں ۔ بیوقوف لڑکے، وہ یہ بات پہلے سے جانتا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔ میں اسے خط لکھتا رہا ہوں کیوں کہ تم میرا لکھنے
کا سامان مجھ سے چھینا بھول گئے تھے۔ اسی لیے تو اتنے برسوں سے وہ یہاں نہیں آیا ۔ وہ ان باتوں کو تم سے بھی کئی ہزار گنا
بہتر طریقے سے جانتا ہے۔ اپنے بائیں ہاتھ سے وہ تمھارے خطوں کو پڑھے بغیر مر کر دیتا ہے۔ اس کی دائیں ہاتھ میں
میرے خط ہوتے ہیں جنھیں وہ پڑھتا ہے ۔”
جوش جذبات میں اس کے باپ نے اپنا بازو سر کے اوپر جھلایا۔” وہ ہر بات تم سے ہزار گنا بہتر طرح سے جانتا
ہے۔ وہ چلایا۔
دس ہزار گنا بہتر جارج نے اپنے باپ کے احمقانہ پن سے مزہ لیتے ہوئے کہا۔
برسوں میں نے انتظار کیا کہ تم ایسا کوئی سوال لے کر میرے پاس آو کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے کسی اور بات کی پرواو
ہوسکتی ہے؟ کیا تمھارے خیال میں میں اخبار پڑھتا رہتا ہوں؟ دیکھ لو
، اس نے جارج کی طرف اخبار کا ایک صفی اچھالا
جیسے وہ کسی طور اپنے ساتھ ہی بستر تک لے آیا تھا۔ ایک پرانا اخبار جس کا نام جارج کے لیے بالکل غیر اجنبی تھا۔
بڑے ہونے میں کتنے سال اور لو گے تمھاری ماں اس انتظار میں مر گئی ۔ اسے یہ خوشی کا دن دیکھنا نصیب نہیں
ہوا تمھارا دوست روس میں خراب ہورہا ہے ۔ حتی کہ تین سال پہلے وہ اتنا زرد تھا کہ چھینک دیئے جانے کے قابل، اور
جہاں تک میرا تعلق ہے ہم جانتے ہو کی حالت میں ہوں ۔ بیردیکھنے کے لیے تمھارے پاس آنکھیں بھی ہیں ۔
تو آپ یہاں لیٹے میرا انتظار کرتے رہتے تھے ۔’ جار چلایا۔
غیر دوستانہ لہجے میں اس کے باپ نے افسوس کے ساتھ کہا : میرے خیال میں یہ بات تم بہت پہلے کہہ دینا چاہتے
ہے لیکن اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، پھر اونچی آواز میں بولا اس لیے کہ اب تم جانتے ہو تمھارے اردگرد دنیا میں
اور کیا کچھ ہے۔ اب تک تمھیں صرف اپن کریں۔ ایک معصوم بچہ ہاں، یہی ہوتی ، یہی ہی ہے لیکن اس سے بھی بڑا یہ
ہے کہ تم ایک شیطان صفت انسان ہو اور اس لیے جھلو
، میں تمھیں ڈوب کر مر جانے کی سزاسناتا ہوں ۔
جارج نے محسوس کیا کہ اسے کمرے سے باہر دھکیل دیا گیا ہو۔ جس دھماکہ خیز آواز کے ساتھ اس کا باپ پچھے کمرے میں
اپنے بستر پرگرا تھا وہ باہر کرتے ہوئے اس کی کانوں میں گونج رہی تھی۔ زینے پر وہ بھاگتا ہوا نیچے اترا جیسے کوئی نشیب ہو وہاں
اس کی ٹر تھیٹر صفائی کرنے والی عورت سے ہوئی جو پچھلی رات کے بعد سے اب اس کے کمرے میں صفائی کرنے آئی تھی ۔
د خدایا وہ چینی اور اپنا چہرہ ایپرن میں چھپا لیالیکن وہ تیزی سے آگے نکل گیا۔ صدر دروازے سے نکل کر وہ بھاگا،
سڑک پر دریا کی طرف بڑھتے ہوئے۔ وہ شئے کو یوں زور سے پڑے ہوئے تھا جیسے کوئی بھوکا آدی خوراک کوٹھی میں
دبائے ہو۔ وہ جنگل کو پلا نگا جمناسک کے ایک غیر معمولی باہر کی طرح جیسا کہ وہ اپنی نوجوانی میں تھا، اپنے والدین کا
فتار کمزور ہوتی ہوئی گرفت کے ساتور های تک خشگل کو پڑھے ہوئے تھا، جب اس نے جنگلوں کے درمیان میں سے
ایک بس کو
آتے دیکھا جو آسانی سے اس کے گرنے کے شور کور با لے گی ۔ وہ خاموی سے اور عزیز والدہ کی ، میں نے ہمیشہ
آپ سے محبت کی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود اور پھر خودکو پنچ گرالیا۔
اس لیے پل پر سے ٹریفک کا غیرفتم سیلاب گزررہا تھا۔
ختم شد







