ان دنوں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں شاید اسی کے ممکنہ انجام کو بھانپ کر ہماری سیاسی قیادت ایک بار پھر سے سرگرم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس وقت اپوزیشن کی باڈی لینگوئج ان کے پرجوش اور پر اعتماد ہونے کا پتہ دے رہی ہے۔ تو دوسری جانب وزرا اور حکومتی ارکان ماضی کے چونچلوں کے برعکس مرجھائے ہوئے ہیں ۔ بلکہ چڑیل کے مطابق بہت سے شعبدہ بازوں نے تو دوسری جماعتوں سے رابطے کرنا بھی شروع کر دیے ہیں ۔ کیونکہ یہ اپنے علاوہ کسی کے ساتھ سچے نہیں ۔ عنقریب آپ دیکھیں گے کہ عمران خان جب پیچھے مڑکردیکھیں گے تو بہت سے ایسا وزراء اور مشیر غائب ہوں گے ۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ عمران خان کو رگڑا لگا رہے ہوں اور کپتان کو کرپٹ خان ثابت کر رہے ہوں۔ سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو دیکھائی دینا شروع ہوگیا ہے کہ اس وقت ملک ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور یہ بالکل کھل کر اور واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ تبدیلی سے مراد حکومت کی تبدیلی ہے۔ اس وقت حکومت کے لیے نہ صرف حکومت کرنا مشکل ہوگیا ہے بلکہ اب حکومت کا بچنا مشکل ہوگا۔ شہباز شریف ، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کے آپسی رابطے بڑھتے جارہے ہیں۔ آج بھی بلاول مولانا فضل الرحمان سے ملنے ان کی رہائش گاہ گئے ۔ اس موقع پر بلاول نے مولانا سے کہا ہے کہ آپ بزرگ سیاست دان ہیں، تین نسلوں سے ہمارا رشتہ ہے، پارلیمان کے ذریعے ہی حکومت کی پالیسیوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ جبکہ مولانا کا کہنا تھا کہ ہم جعلی حکومت کو بہت جلد گھر بھجیں گے، دھاندلی زدہ حکومت کو اصلاحات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ۔ آپ حکومت کی پارلیمان میں حالیہ شکستیں کو دیکھیں تو یہ اپوزیشن کی بڑی کامیابیاں ہیں۔ ویسے حکومت کوتو آئے روز ہر محاذ پر شکست ہی ہورہی ہے۔ عمران خان کے دیے گئے ظہرانے میں صرف 70 سے 75لوگ آئے ۔ اس خبر نے تو اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ مجبوراً رات کے اندھیرے میں اکیلا اکیلا اب ایم این ایز سے ملا جا رہا ہے۔ کیونکہ گزشتہ کئی ہفتوں سے قومی اسمبلی کے اجلاس محض اس وجہ سے مؤخر ہوتے رہے ہیں کہ حکومتی بنچوں پر کورم کو یقینی بنانے والے 86اراکین موجود نہیں ہوتے تھے۔

یوں تین سال میں یہ پہلی دفعہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو کسی محاذ پر شکست دینے کے قابل ہوئی ہے۔ اب لوگ تو سوال کر رہے ہیں کہ کوئی تو طاقت تھی جو پہلے ارکان کو حاضر کر دیتی تھی لیکن اس بار عمران خان کے پاس وہ طاقت نہیں تھی۔ اس لیے ان کے اپنے ارکان ہی نہیں آئے۔ ان کے اتحادیوں نے بھی اب زبانیں کھولنی شروع کر دی ہیں ۔ آپ دیکھیں وہ اتحادی جوکوئی بات نہیں کر سکتے تھے ۔ وہ اب کھلم کھلا اختلاف کر رہے ہیں۔ یہ نئی تبدیلی ہے ۔ پھرعمران خان چاہے اپوزیشن لیڈروں سے ہاتھ ملائیں یا نہ ملائیں ۔ ان کے مشیرو ترجمان جتنے مرضی سخت بیانات دیتے رہیں ۔ پر آج اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو باضابطہ خط لکھ دیا ہے۔ جس میں اپوزیشن لیڈر سے انتخابی اصلاحات بل سمیت دیگر اہم قوانین پر اتفاق رائے کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ لفظ اپیل پر غور کریں ۔ اب کیا عوام یہ سمجھے کے عمران خان اور پی ٹی آئی اپنے ذاتی مفادات کے لیے کرپٹ ٹولے کے سامنے ڈھیر ہوگئی ہے ۔ یا لیٹ گئی ہے ۔ یعنی جب بات اپنے آپ پر آجائے تو سب کچھ جائز ہوجاتا ہے ۔ ویسے چاہے آپ دنیا جہاں کی مثالیں دیتے رہیں کہ سیاست کیسے ہوتی ہے ۔ اخلاقیات کیا ہوتی ہیں ۔ کتنا عجیب ہے کہ وہ کپتان جو اقتدار کو جوتی کی نوک پر رکھنے کی بھاشن دیا کرتا تھا اب کرسی بچانے کے لیے شہباز شریف کے پیر پکڑنے کو بھی راضی دیکھائی دیتا ہے ۔ پر میں ایک بات جانتا ہوں کہ وہ کپتان ہی کیا جو یوٹرن نہ لے ۔ پارلیمنٹ کی اندر بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے درمیان نیا سیاسی رومانس بھی دیکھنے کومل رہا ہے۔ ۔ جب کہ مزاحمت یا ٹکراؤ یا سڑکوں کی سیاست جس میں لانگ مارچ بھی شامل ہے میں نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ پہلا وار ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ پر ہونے والا ہے ۔

۔ پھر جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے اس پر کھیل کافی دلچسپ ہے۔ جے یو آئی ف تو اعلانیہ طور پر کسی بھی طرح کی ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں نہیں۔ آج بھی مولانا نے یہ ہی بات کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت کو ختم کرکے نئے عام انتخابات کرانے کے مطالبے پر قائم ہے۔ مسلم لیگ ن بشمول مصالحتی گروپ بھی ایسے کسی اقدام کا ہرگز حصہ نہیں بننا چاہتا جس سے عمران خان کو عدم مقبولیت کی موجودہ سطح پر بھی سیاسی شہید بننے کا موقع ملے۔ پیپلز پارٹی مرکز سے پہلے پنجاب میں تبدیلی چاہتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پنجاب میں یہ کھیل کھیلنے کے بعد ہم مرکز کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے اہم افراد پنجاب میں تبدیلی کے حامی نہیں۔ اس کھیل میں بڑی رکاوٹ بھی نواز شریف اورمریم نواز ہیں۔ شریف خاندان کسی بھی صورت میں پنجاب کی سطح پر چوہدری برادران کے سیاسی کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن یہ بھی سمجھتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل پنجاب اور مرکزمیں تبدیلی کی صورت میں معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری کا سارا غصہ نئی حکومت پر پڑے گا اور ہم بھی کوئی بڑا معاشی ریلیف لوگوں کو نہیں دے سکیں گے۔اس لیے ان کے بقول درست حکمت عملی یا آپشن نئے انتخابات کا راستہ ہی ہوسکتا ہے ۔ پر ایک چیز جس پر اپوزیشن ایک پیج پر دیکھائی دیتی ہے کہ ۔ ان کا ہدف عمران خان ہے۔ اس لیے اب نشانہ عمران خان ہی ہوگا۔ باقی سب باتیں ختم ہو گئی ہیں۔ فی الحال عمران خان کے پاس اپوزیشن کی کسی سیاسی چال کا جواب نہیں ہے ۔ اگر ایک طرف سڑکوں پر میدان سجے گا تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں میدان سج گیا ہے۔ بہر حال موجودہ فتح کا کریڈٹ شہباز شریف کو ہی جاتا ہے۔ یہ میں کیوں کہہ رہا ہوں آنے والے دنوں میں سب کو معلوم ہوجائے گا ۔ پھرحکومت کی اہم اتحادی ایم کیو ایم اور ق لیگ کے گلے شکوے بھی بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ واضح طور پر سیاسی فضا میں ایک تبدیلی محسوس کی جارہی ہے جو کہ کسی صورت بھی حکومت کے لیے مثبت نہیں ہے ۔ آپ دیکھیں یہ ایسی منفرد حکومت ہے کہ اس کے اتحادی بھی آنکھیں دکھاتے ہیں اور کبھی کبھار تو اپنے وزراء ہی آمنے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اتفاق رائے کی طرف نہیں بڑھتے۔ نجانے کیوں حکومت نے یہ تماشا لگا رکھا ہے۔ اگر زبانوں کا استعمال کم کر کے دماغوں کا استعمال بڑھایا جائے، بولنے کے بجائے سننے کو ترجیح دی جائے تو یقینی طور پر معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے تھے۔ لیکن حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ انہوں نے کوئی سیدھا کام بھی سیدھے طریقے سے نہیں کرنا بلکہ ہر وقت تنازعات میں الجھے رہنا ہے۔۔ میں پہلے بتا رہا ہوں کہ حکومت کو تیار رہنا چاہیے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، سیاست میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتحادی بھی منہ موڑ لیتے ہیں، اتحادیوں کا موڈ بدل گیا تو کسی بھی وقت تبدیلی آ سکتی ہے۔ ویسے جو حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر نہیں چل سکتی وہ مہنگائی سمیت دیگر مسائل کیسے حل کر سکتی ہے۔ دوسری جانب جہاں آج انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 176 روپے کی سطح پر پہنچ گئی تھی۔ تو وزارت خزانہ نے بتایا ہے کہ موجودہ حکومت کے تین سال کے دوران پاکستان کے کل قرضوں میں 16 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسائل کی ایک دلدل ہے جس میں پاکستان دھنستا ہی چلا جا رہا ہے ۔ اب مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پی ٹی آئی اپنے پانچ سال پورے کرتی ہے یا نہیں ۔ پر ایک بنیادی سوال ہے کہ کیا عوام یا غریب لوگ بھی عمران خان کے یہ پانچ سال پورے کریں گے۔ سوچنے کی بات ہے ۔

۔ آج ملک بھر میں عوام انتہا درجے کی مہنگائی اور بے حساب بیروزگاری کے ہاتھوں زچ ہوکر جھولیاں اٹھائے آسمان کی جانب آنکھیں جمائے نظر آتے ہیں۔ ۔ پھر بہت سے لوگ مجھے جب ملتے ہیں تو گلہ کرتے ہیں کہ آپ ہمیشہ مسائل بتاتے ہیں کبھی حل بھی بتا دیا کریں تو ۔۔۔ احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار روپے فی خاندان دے کر نہ تو ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی معاشی ترقی۔ البتہ ملک مزید مقروض ہوتا جائے گا۔ اس سے بہتر ہے کہ عوام کو ہر مہینے یا تین ماہ بعد مچھلی دینے کے بجائے کانٹا اور دیگر سامان دے کر مچھلی پکڑنا سکھایا جائے۔ یعنی چھوٹے کاروبار کروائے جائیں۔ تاکہ غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ اس حوالے سے’’اخوت‘‘ سے رہنمائی لینی چاہیے۔ جس نے لاکھوں افراد کو برسرروزگار کر دیا ہے۔ اور اس کے وسائل بھی محفوظ ہیں۔ حکمرانوں کو مجموعی طور پر خوددار بننا ہوگا۔ عالمی اور قومی اداروں سے بھیک مانگنے اور دوسروں کا حق اور مال ہڑپ کرنے کے بجائے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا خیال رکھنا ہوگا۔ یاد رکھیں اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حکمران ہیں ۔ چاہے وہ موجودہ ہوں یا پرانے ۔۔۔ یہ جب مسند اقتدار پر بیٹھتے ہیں تو اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اپنے خاندان ، اپنی پارٹی، اپنے دوست اور اپنی ذات سے باہر ان کو کچھ دیکھائی ہی نہیں دیتا تو ملک اور عوام کے حالات کیسے بہتر ہوں گے ۔ یوں سب سے بڑا مسئلہ حکمرانوں کی نیت کا ہے ۔ اس لیے ایک بات تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگ تبدیلی سے تنگ آ چکے ہیں۔ جہاں بھی جاؤ لوگوں کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت گھر کب جائے گی

Shares: