بھارت میں اس وقت ایک پورا چینی گاؤں آباد ہو چکا ہے۔ اور یہ بات میں یا کوئی پاکستانی میڈیا رپورٹ نہیں کر رہا بلکہ انڈیا کے حمایتی امریکہ کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ چین نے اس حد تک انڈیا کے سرحدی علاقوں پر قبضہ حاصل کر لیا ہے کہ بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے پاس بھارتی علاقے میں اپنا ایک گاؤں بسا دیا ہے۔ جس پر انڈیا میں حکومت اور فوج دونوں ہی عجیب بوکھلاہٹ کا شکار ہیں بھارتی فوج کچھ اور بیان دے رہی ہے جبکہ بھارتی وزارت خارجہ الگ ہی راگ الآپ رہی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق یہ گاؤں چین کے علاقے میں ہے جبکہ بھارتی وزارت خارجہ اسے غیر قانونی تعمیرات کہہ رہی ہے۔کچھ عرصہ پہلے خود انڈین میڈیا نے بھی اس خبر کو رپورٹ کیا تھا کہ چین کا ایک گاوں بھارتی علاقے میں موجود ہے لیکن مودی سرکار اس پر خاموش رہی بلکہ اپنے میڈیا کو بھی چپ کروا دیا کہ خبردار اس پر کوئی رپورٹ نہ کرے لیکن انٹرنیشنل اداروں کو رپورٹ کرنے سے تو مودی سرکار نہیں روک سکتی اس لئے اب امریکی رپورٹ نے نہ صرف اس خبرکی تصدیق کر دی ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس علاقے میں سو مکانات کی ایک بستی آباد کی گئی ہے اور وہاں پر تیزی سے ایسا انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا رہا ہے جس میں ہر طرح کی جدید سہولیات لوگوں کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ جس پر انڈای کی جانب سے طرح طرح کے بیانات دئیے جا رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کی ترجمان ارندم بگچی کا بیان آیا ہے کہ۔۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا تھا چین نے گزشتہ کئی برسوں سے سرحدی علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور اس میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر اس نے دہائیوں سے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت نے نہ تو اپنی سرزمین پر ایسے غیر قانونی قبضوں کو قبول کیا ہے اور نہ ہی اس نے چین کے بلا جواز دعووں کو تسلیم کیا ہے۔ حکومت نے سفارتی ذرائع سے اس طرح کی سرگرمیوں کے خلاف ہمیشہ اپنا شدید احتجاج بھی درج کیا ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ حکومت بھارت کی سلامتی پر اثر انداز ہونے والی تمام پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی ہے اور اپنی خود مختاری، سالمیت اور علاقائی تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات بھی کرتی رہی ہے۔

لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے اس بات کو مسترد کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس دعوے میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ لائن آف ایکچوؤل کنٹرول پر چینی گاؤں کی تعمیرات کا مسئلہ تو درست ہے۔ اور چین یہ گاؤں اس لیے تعمیر کر رہا ہے تاکہ ممکنہ طور پروہ اپنے شہریوں کو یا پھرمستقبل میں اپنی فوج کو سرحدی علاقوں میں بسا سکے۔ خاص طور ایل اے سی پر حالیہ کشیدگی کے بعد ۔۔ لیکن یہ جو نیا تنازعہ پیدا ہوا ہے کہ چینیوں نے ہمارے علاقے میں آ کر ایک نیا گاؤں بنایا ہے یہ درست نہیں ہے۔ وہ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ان دیہاتوں کی تعمیر ایل اے سی کے تحت اپنی سرحد کے اندر کر رہے ہیں۔ ایل اے سی کی حوالے سے جو ہمارا تصور ہے اس کے مطابق انہوں نے ہمارے علاقے میں کوئی در اندازی نہیں کی ہے۔ ہم بالکل واضح ہیں کہ لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کہاں ہے، کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایل اے سی پر یہ آپ کی صف بندی ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جس کا آپ سے دفاع کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔اب ان دو طرح کے بیانات اور انڈین فوج کی گزشتہ سال جس طرح چین کے فوجیوں سے پٹائی ہوتی رہی ہے اس کے بعد آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا بیان حقیقت کے قریب ہے۔ ویسے ہو سکتا ہے بپن راوت ٹھیک کہہ رہے ہوں اپنی فوج کی پٹائی کے بعد وہ علاقہ انڈیا نے چین کو دے دیا ہو جس کے بعد اب وہاں چین کا قبضہ ہے اور پورا گاوں بھی آباد ہو گیا ہے کیونکہ خود کانگریس کا بھی بھارتی حکومت کے حوالے سے یہی کہنا ہے کہ مودی نے چین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔مودی کے سپورٹرز جو بڑکیں مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ مودی کا سینہ 56 انچ چوڑا ہے۔ ان کو نشانہ بناتے ہوئے راہول گاندھی نے ٹوئیٹ بھی کی ہے کہ ہماری قومی سلامتی سے ناقابل معافی سمجھوتہ کیا گیا ہے کیونکہ بھارتی حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور مسٹر 56 انچ تو کافی خوفزدہ ہیں۔ مجھے اپنے ان فوجیوں کی فکر لاحق ہے جو ہماری سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں جب کہ بھارتی حکومت کے منہ سے بس جھوٹ ہی نکل رہا ہے۔

مودی سرکار دراصل کر کیا رہی ہے۔ مودی سرکار نے ایک تو بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ ظاہری بات ہے اس بارے میں جتنی بات کریں گے ان کے جھوٹ کہیں نہ کہیں پکڑے جائیں گے۔ اور دوسرا کام یہ کیا جا رہا ہے کہ کنگنا رناوت جیسی مودی سرکار کی ٹاوٹ کو چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جو اس کے منہ میں آئے بولے جائے ایسے بیانات دے جس سے ہندوتوا شدت پسندی میں خوب اضافہ ہو اور لوگوں کا دھیان ایسی خبروں سے ہٹا رہے۔اور اب جو کنگنا نے آزادی حاصل کرنے کے حوالے سے بیان دیا ہے اس پر سبھی حیران ہیں۔ کنگنا رناوت نے کہا ہے کہ آزادی اگر بھیک میں ملے تو کیا وہ آزادی ہو سکتی ہے؟ ساورکر، رانی لکشمی بائی، سبھاش چندر بوس۔۔ ان لوگوں کی بات کروں تو یہ لوگ جانتے تھے کہ خون بہے گا، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ہندوستانی-ہندوستانی کا خون نہ بہائے۔ انھوں نے آزادی کی قیمت چکائی، یقینا۔ لیکن وہ آزادی نہیں تھی، وہ بھیک تھی۔ جو آزادی ملی ہے وہ 2014 میں ملی ہے۔جس کے بعد انڈین عوام کی طرف مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کنگنا رناوت کو حال ہی میں جو پدماشری ایوارڈ دیا گیا تھا وہ واپس لیا جائے اور اس کو جیل بھیجا جائے۔رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی نے تو کنگنا پر مجاہدین آزادی کی بے عزتی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ کنگنا کی اس سوچ کو میں پاگل پن کہوں یا پھر ملک سے غداری۔ انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا کہ۔۔ کبھی مہاتما گاندھی جی کی قربانی اور جدوجہد کی بے عزتی، کبھی ان کے قاتل کی عزت افزائی، اور اب شہید منگل پانڈے سے لے کر رانی لکشمی بائی، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، نیتا جی سبھاش چندر بوس اور لاکھوں مجاہدین آزادی کی قربانیوں کی بے عزتی۔ اس سوچ کو میں پاگل پن کہوں یا پھر ملک سے غداری؟کانگرس کی رہنما آنند شرما نے تو اپنی ٹویٹ میں صدر رام ناتھ کووند کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ مس رناوت کو دیا گیا پدما ایوارڈ فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ایسے ایوارڈ دینے سے پہلے نامزد افراد کے ذہنی اور نفسیاتی تجزیے کیے جائیں تاکہ مستقبل میں ایسی شخصیات قوم اور اس کے ہیروز کی توہین نہ کر سکیں۔یہی وجہ ہے کہ ٹوئیٹر پر نہ ہونے کے باوجود بھی اس وقت کنگنا رناوت ٹوئیٹر پر ٹرینڈ کر رہی ہیں۔ لیکن میں آپ کو سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ وہ یہ سب خود مودی جی کے کہنے پر تو کر رہی ہیں اور وہ مودی سرکار جس نے کنگنا کو سیکیورٹی فراہم کر رکھی ہے وہ کیوں اسے کچھ ہونے دیں گی۔
اور کنگنا رناوت دو ہزار چودہ میں ملنے والی کس آزادی کی بات کر رہی ہیں یہ کیسی آزادی ہے کہ اتنی بڑی جمہوریت اور اتنے بڑے ملک میں خود وہاں کے مسلمان محفوظ نہیں ہیں ان کو اتنا حق بھی حاصل نہیں کہ وہ کہیں اکھٹے ہو کر با جماعت نماز پڑھ سکیں۔

انڈیا کی ریاست ہریانہ کے گڑگاؤں شہر میں ہندو گروپس نے کھلی جگہوں پر مسلمانوں کی نماز رکوا دی ہے۔ہندو گروپس نے سیکٹر 12 اے میں واقع ایک جگہ پر قبضہ کرلیا۔ اور جب آس پاس کے لوگ اکھٹے ہوئے تو ان کو کہہ دیا گیا کہ وہ یہاں والی بال کورٹ بنا رہے ہیں۔ اور تو اورگراونڈ میں اور اس کے آس پاس کی جگہ جہاں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں وہاں انھوں نے گوبر کے اپلے پھیلا دئیے تاکہ وہ جگہ ناپاک ہو جائے اور مسلمان وہاں نماز نہ ادا کر سکیں۔ دراصل پچھلے کئی ہفتوں سے مسلمانوں کو اس شہر میں مختلف مقامات پر نماز کی ادائیگی سے روکنے کے لئے دھمکیاں دی جا رہی تھیں لیکن جب کوئی فرق نہ پڑا تو انہوں نے یہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دئیے حالانکہ ایک ہفتہ پہلے خود اس ہندو گروپ نے اس گراونڈ میں پوجا بھی کروائی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ یہ نماز کی جگہ نہیں ہے بلکہ عوامی مقامات ہیں۔ حالانکہ گڑگاؤں کا سیکٹر 12-Aان 29 مقامات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں 2018 میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ہوئے ایک معاہدے ہوا تحا جس میں طے کیا گیا تھا کہ یہ جگہ مسلمانوں کی نماز کے لیے مختص ہے۔لیکن نہیں ایسے لوگوں کے خلاف مودی سرکار کچھ نہیں کرے گی بلکہ ایسے واقعات تو اپنے خاص لوگوں سے جان کر کروائے جاتے ہیں تاکہ مودی سرکار کی قابلیت عوام کے سامنے نہ آجائے کہ کیسے یہ چین کے ہاتھوں مار بھی کھا رہے ہیں اور اپنے علاقے بھی ان کو دے رہے ہیں۔ لیکن اپنے ہی مسلمان شہریوں پر جگہ تنگ کی ہوئی ہے۔

Shares: