میڈیا کی بے لگام آزادی،تحریر: ارم شہزادی
بین الاقوامی انسانی حقوق کے آرٹیکل نمبر 10 کے تحت ہر کسی کو بولنے اور آواز بلند کرنے کا حق ہے اور ہر ملک کے آئین میں اس بات کو شامل کیا گیا ہے کہ بنا کسی فرق کے ہر فرد کے پاس تنقید یا تعریف کا حق موجود ہے
لیکن
یہاں پھر کچھ باتیں ایسی جنم لیتی ہیں جن سے اس حق کا غلط استعمال ہوتا دیکھا جاتا ہے۔
ہر کسی کے پاس بولنے کا حق موجود ہے لیکن کیا کسی کی ذاتی زندگی پر بنا ثبوت کے کیچڑ اچھالنے کا حق بھی ہے؟ کیا قومی حساس معاملات پر ان لوگوں کا بولنا بھی حق ہے ہے جو اسکا بلکل بھی ادراک نہیں رکھتے یا پھر جھوٹی خبر یا جھوٹ پر مبنی بنائی گئی کہانی گھڑنا بھی آزادی اظہار رائے میں آتا ہے؟تو جواب ہے بلکل نہیں۔ ہر بات اور ہر لفظ کا ذمہ دار اسکا بولنے والا استعمال کرنے والا ہوتا ہے اور ان الفاظ سے پیدا ہونیوالے اثرات کا بھی وہی ذمہ دار ہوتا ہےفرض کریں ایک شخص مزہبی منافرت کو ہوا دے رہا ہو جس سے فسادات برپا ہونے کا خدشہ ہو تو کیا اس فرد کو اس لئے بولنے دینا چاہیے کہ اسے انسانی حقوق نے یہ حق دیا ہے؟ آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ ہے کہ ان معاملات میں بولنا چاہیے جو آپکا سرکل ہے۔ اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر کسی دوسرے کے دائرے میں بولنا دوسرے کی ناصرف حق تلفی ہے بلکہ ایک سوچ کی خرابی کو جنم لیتا ہے جسے کہتے ہیں ڈس انفارمیشن۔ تعلیم اور پیشہ ور معاملات کی ہی مثال لے لیجئے کہ ایک استاد جسکا پیشہ اور تعلیم ایک مخصوص شعبے کو پڑھانا ہے وہ کسی دوسرے شعبے کو نہیں پڑھا سکتا تو کیسے وہ اس پر رائے دینے کا بھی حقدار ہوگا؟
اسی طرح کچھ میڈیا ہؤسسز ہیں جو اس آرٹیکل کو اپنی جھوٹی من گھڑت اور غلط معلومات پر منحصر خبریں نشر کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اگر انہیں کوئی اس بات سے روکے تو میڈیا کی آزادی پر قدغن قرار دی جاتی پے۔ پاکستان بھی آجکل انہی حالات سے گزر رہا ہے۔ ٹالک شوز میں معیشیت پر اینکرز حضرات اپنا تجزیہ دے رہے ہوتے ہیں جنکی نہ تو تعلیم معیشیت پر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا تجربہ۔ کورٹ روم کے باہر اگر دس سال کوئی کیمرہ مین کوریج کرتا رہا ہے تو اسے قانونی امور پر تجزیے کے لئے بٹھا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ملک کے دفاعی اور حساس معاملات پر ایسے عجیب و غریب تجزئیے پیش کیے جاتے ہیں جیسے کل ہی دشمن ہمارے ملک پر قبضہ کرلے گا اگر ان جناب کا تجزیہ نہ مانا تو۔
اصل میں پاکستان کا میڈیا خود کو بے لگام گھوڑا بنانا چاہتا ہے اور جھوٹی خبر اپنا حق سمجھنے لگا ہے۔ کچھ دن پہلے فیک نیوز پر قانون سازی کے کچھ پیپر ورک ہوا حکومت کیطرف اور میڈیا یونینز سے انکے نمائندے پیش کرنے کے لئے کہا گیا کہ اس قانون کے نکات پر اپنی رائے دیں تاکہ مزید بہتری آسکے۔ وہ سب بجائے ان نکات کو پڑھتے ان پر کام کرتے وہ سب دھرنےپر بیٹھ گئے کہ جھوٹی خبر دینا تو ہمارا حق ہے اور لوگوں میں افراتفری پھیلانا بھی۔ اس سے پاکستان کا امیج دُنیا میں ایک میڈیا پر پابند سلاسل لگانے والا ملک شو کیا گیا حالانکہ وہ قانون صرف اور صرف جھوٹی خبر پھیلانے والے کے خلاف تھا۔ مطلب میڈیا کو اس قدر آزادی چاہیے کہ اگر وہ جھوٹ بولیں تو ان پر کوئی قدغن نہ لگے اور نہ ہی ان سے کوئی پوچھنے والا ہو۔ سبھی ترقی یافتہ ممالک میں یہ قانون موجود ہے اور کڑھے جرمانے رکھے گئے ہیں جھوٹی خبروں پر۔ پاکستانی میڈیا ناصرف ملک کے اندرونی معاملات ہر جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلانے میں ملوث ہے بلکہ خارجہ پالیسی جیسے حساس معاملات پر بھی کچھ صحافی جھوٹ بولنے میں پیش پیش ہیں
پچھلے سال اقوام متحدہ کے ڈس انفارمیشن سیل نے اس بات کو واضح کیا کہ کس طرح بھارتی میڈیا کی جانب سے غلط انفارمیشن پھیلائی گئی پاکستان کے متعلق اور ان جھوٹی معلومات پر پاکستانی صحافیوں نے تجزئیے بھی پیش کیے ان سبھی معاملات کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ میڈیا کی بے لگام آزادی کسی بھی ملک کے لئے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ ہر بات اگر نشر ہونے لگی تو حساس قومی معاملات کو نقصان پہنچے گا۔ آج کی ففتھ جنریشن وار میں سب سے بڑا ہتھیار میڈیا کا غلط استعمال کروانا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ نام نہاد صحافی انہیں ایجنڈوں پر کام کررہے ہیں۔ دنیا میں مختلف وارداتوں کے علاوہ بچوں کے ریپ ہوں یا قتل میڈیا حکومت کی اجازت کے بغیر خبر نشر نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن یہاں پولیس بعد میں پہنچتی ہے اور میڈیا تک خبر پہلے جاتی ہے جس کا، نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب تک حقائق پتہ چلتے ہیں تب میڈیا کی وجہ سے ایک ایسی رائے عامہ تیار ہوچکی ہوتی ہے کہ پھر اسے کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے، اس کی ایک مثال یہ بھی ہے "فرانس کمیشن مطابق وہاں چرچ 50 سالوں میں ساڑھے تین لاکھ بچوں ساتھ ریپ ہوئے جو سالانہ قریبا 5000 کیسز ماہانہ 400 روزانہ قریبا 14 child abuse کیس بنتے ھیں” اب یہی کیس اگر پاکستان میں ہو تو پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہوجائے گا میڈیا کی بےلگامی کی وجہ سے، لیکن فرانس میں اسے میڈیا، پر اسے زیر بحث لانے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں بھی ملک کو نیشنل اور انٹرنیشنل پر بدنامی سے بچانا ہے تو میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔کچھ پابندیاں لگانا ہونگی خاص طور پر ملکی مفاد کے خلاف کوئی بات زیربحث نہیں لائی جاسکتی۔۔
تحریر ارم شہزادی
@irumrae