اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر نے کہا ہے کہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ تہران کے پاس جوہری بم نہ ہو۔
باغی ٹی وی: تفصیلات کے مطابق اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر امیکم نورکن نے کہا تل ابیب ایک "انشورنس پالیسی” کی نمائندگی کرتا ہے جو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ایران جوہری بم حاصل نہیں کرے گا ہم انشورنس پالیسی رکھتے ہیں، ہم غلطیاں کرتے ہیں، لیکن ہم غلطیوں کی اصلاح کرلیتے ہیں ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ تہران کے پاس جوہری بم نہ ہو۔
"ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق منگل کے روز اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ ان کے ملک کی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ ایک تازہ معاہدہ کیا جائے یا پھر ایران پر وسیع پیمانے پر حملے کا منصوبہ بنایا جائے۔
ایران نے جوہری پروگرام میں تمام” حدیں” عبور کر لی ہیں اسرائیلی وزیراعظم
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب 29 نومبر کو ویانا میں جوہری مذاکرات کا ساتواں دور شروع ہوا تھا منگل کے روز ایرانی جوہری معاہدے میں شریک یورپی ممالک نے اس فائل پر مذاکرات کی بحالی کے ایک دن بعد کہا کہ بات چیت میں آنے والے دنوں میں ایرانیوں کی "سنجیدگی” کا اندازہ لگایا جائے گا اور بات چیت کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
سنہ 2015 کے بین الاقوامی معاہدے میں شریک ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ویانا میں سفارت کاروں نے خبردار کیا کہ "اگر ایرانی ہمیں سنجیدگی نہیں دکھاتے ہیں کہ تواگلے 48 گھنٹے نازک ہوں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ جمعرات کو بینی گینٹز نے کہا تھا کہ تل ابیب ایران کے جوہری پروگرام پر فوجی حملہ کرنے کی صلاحیت تیار کرنے کے لیے کام کر رہا ہے ہمیں ایران کے حوالے سے اپنے شراکت داروں پر اثر انداز ہونا ہے اور ان کے ساتھ مسلسل بات چیت کرنی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل ایک ایسا جوہری معاہدہ چاہتا ہے جو نہ صرف یورینیم کی افزودگی کے مسئلے کو حل کرے بلکہ خطے میں ایران کی سرگرمیوں کو بھی حل کرے۔
دوسری جانب ویانا جوہری مذاکرات میں ایران نے امریکا سے دو طرفہ مذاکرات کا امکان مسترد کر دیا ہے ترجمان ایرانی وزارت خارجہ سعید خطیب زادہ کا کہنا تھا کہ ویانا میں امریکی وفد سے دو طرفہ ملاقات نہیں ہوگی-
دنیا کو ایران کے جوہری پروگرام سے لاتعلق نہیں ہونا چاہیے سعودی عرب
ایران جوہری معاہدہ بحالی کے لیے مذاکرات 29 نومبر سے شروع ہوئے جن میں ایران، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جوہری معاہدے پربات چیت میں شریک ہوئےجبکہ جوہری معاہدے پر مذاکرات میں امریکا بالواسطہ طور پر شریک ہوگا۔
واضح رہے کہ ایران اور 6 ممالک کے درمیان ایرانی جوہری معاہدہ 2015ءمیں ہوا تھا، 2018ء میں امریکا یک طرفہ طور پر معاہدے سے علیحدہ ہو گیا تھا جس کے بعد ایران نے بھی معاہدے پر عمل درآمد روک دیا تھا۔