سانحہ مری۔۔۔ہم کب بڑے ہونگے تحریر :سیدہ ذکیہ بتول

0
57

برف کی موٹی تہہ میں سسکتی زندگی کی کہانی جا بجا گردش کرتی تصویری جھلکیوں سے دیکھی جا سکتی ہے مگر اس شب زندگی جینے والوں پہ کیا بیتی یہ احساس ہر ذی روح کو چھلنی کیے جارہا ہے۔ مری ہمیشہ ہی سیاحوں کا خواب رہا چاندی کی طرح آسماں سے اترتی برف کوئی جادوئی سی داستان لگتی ہے۔۔اور اس جادو کو چھونے کی خواہش میں ہر سال لاکھوں لوگ ملکہ کوہسار کا رخ کرتے ہیں اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔۔بچوں کو سردیوں کی تعطیلات ہوئیں تو کئی خاندانوں نے سیر کے لیے مری کو گاڑی موڑ دی جسکو بریک ناگہانی موت نے لگائی۔۔
برفباری شروع ہوئی تو موجودہ حکومت کے وزیر اطلاعات نے خوشخبری سنائی "ملک میں سیاحت فروغ پارہی لاکھوں گاڑیاں مری گلیات نتھیا گلی پہنچی ہیں”جبکہ حقائق کا جائزہ لیا جائے تو مری میں صرف پارکنگ کے لیے پچاس ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے ٹول پلازے سے جب گاڑیاں گزرتی رہیں تو حکومتی گنتی ساتھ ساتھ ٹوئٹر پر چلتی رہی مگر برتری سے غفلت تک کے سفر نے صرف ایک رات لی اور ڈھیروں گاڑیوں کے ہجوم نے ٹریفک کو تعطل کا شکار کیا۔۔۔موسم نے بھی تیور دکھائے تو یخ ہواؤں نے برف برسانا شروع کر دی جسکی پیشگی اطلاع پہلے ہی سے محکمہ موسمیات دے چکا تھا۔۔مگر سیاحوں کو نہ روکا گیا نہ رہنمائی کی گئی سیاحتی ترقی کا ڈھول پیٹا جاتا رہا۔
مری کو جاتی سڑک پر گاڑیاں رکی تو زندگی بھی تھمنے لگی اپنی مدد آپ کے تحت کئی لوگوں نے موت سے فرار کی راہ پکڑی تو برف نے جانے نہ دیا واپس اپنی گاڑیوں میں بیٹھنا آخری حل جانا۔۔اور انتظامیہ کی راہ میں نظریں ونڈ سکرینوں پہ جمی رہیں مگر سخت سردی میں رات فیصلوں میں بیت گئی کہ کیا کیا جائے؟؟ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہمیشہ ہی مری کی سڑک پر ایسے موسموں میں ٹریفک جام ہوجاتا ہے مگر حل کیا ہوسکتا ہے یہ ہم سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نہ سوچ سکے بلکہ ایک ایسی ریاست جہاں انسانوں کی زندگیاں انکا مال حکومتوں کی امانت ہوا کرتا ہے وہاں انہیں مرنے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔۔
صبح جب گاڑیوں میں بے بسی سے مر جانے والوں کی ویڈیوز سامنے آئیں تو انتظامیہ نے بھی جاگنا مناسب سمجھا پھر ایسی پھرتیاں دکھائیں جیسے اختیار میں سب تھا بس مرضی نہیں تھی۔پاک فوج کی پیدل پانچ پلاٹون کو طلب کر دیا گیا ریسکیو ٹیمیں بھیجی جانے لگیں۔۔وزیر مشیر سب بیانات داغنے لگے اور ٹوئٹر پر حادثے کے بعد کیے جانے اقدامات چمکنے دمکنے لگے وزیراعظم صاحب نے بھی اپنے ٹوئٹری پیغام میں کہیں نہ کہیں سیاحوں کو مودود الزام ٹھہرانا مناسب سمجھا تو جناب سیاحت کے لیے اب لوگ سوئٹزرلینڈ تو جانے سے رہے جائیں گے تو مری تک ہی جائیں گے ناں۔۔
جو ہونا تھا ہوگیا ایک ایک جان کا جانا حکومت کے سر۔۔مگر اب سوچنا یہ ہوگا کہ غفلت کہاں ہوئی تاکہ کہیں تو نظام کی درستگی کی طرف قدم بڑھایا جاسکے سب سے پہلے تو ‏محکمہ موسمیات پیش گوئی کے ساتھ ساتھ ریڈالرٹ جاری کر سکتا تھا پھر انتظامیہ مقررہ تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافی داخلہ بند کروا سکتی تھی ریسکیو آپریشن میں تاخیر بالکل نہیں برتنی چاہیے تھی این ڈی ایم اے کہاں رہی رات بھر؟ مری میں موجود آرمڈ فورسز بیسز سے امداد طلب کی جاسکتی تھی۔
اب وقت ہے کہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا جائے نوجوان لڑکوں لڑکیوں کوسول ڈیفنس کی لازمی تربیت دی جائے معلوم ہونا چاہیے کہ برف باری میں پھنسی گاڑی میں رات کیسے گزارنی چاہیے اور اگر ایسی مشکل صورتحال پیش آجائیں تو کون سے اقدامات سے جان بچائی جا سکتی ہے۔ صرف باتوں سے بات نہیں بڑھتی عملی اقدامات سے ہی ایسے حادثات کو روکا جاسکتا ہے۔
موجودہ حکومت ہمیشہ سے ہی سیاحت کو فروغ دینے کا نعرہ لگاتی ہے مگر سیاحت کو فروغ دینے کے لیے راستے آسان کیے جاتے ہیں لوگوں کے لیے سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے اپنے اداروں کو ایمانداری سے فرض شناسی پہ مامور کیا جاتا ہے انفرا اسٹرکچر بہترین بنانے کے لیے عملاً اقدامات کیے جاتے ہیں حالات کہیں نازک ہونے لگیں اور سیاحوں کی جان پہ بنی ہو تو فیصلوں میں تاخیر نہیں کی جاتی سیاحت کا فروغ محض دعووں سے ممکن نہیں۔۔پوری دنیا میں برف باری ہوتی ہے گاڑیاں بھی چلتی ہیں ٹرینیں بھی خوبصورت نظاروں کی دید کا شوق لیے سیاحوں کے لیے دواں دواں رہتی ہیں کہیں معمول زندگی رک نہیں جاتا علاقے بند کر دینے سے سیاحت اپنی موت آپ مر جاتی ہے تقاضا یہ ہے کہ حالات سازگار کیے جائیں ملک بھر سے لوگ برف باری دیکھنے ہی نکلتے ہیں۔ برف میں گاڑیاں پھنسنا، رات گاڑی میں گزارنا دنیا بھر میں معمول ہے مگر ایسے حالات میں بھاری بجٹ سمیٹتے ادارے کیوں سوئے رہتے ہیں؟ ہم نہ جانے کب سوچیں گے ایسے کئی حادثے ہوتے ہیں کچھ دن سرخیوں میں رہتے ہیں پھر ہم نہ سیکھنے کی رسم دہراتے ہوئے کسی نئے حادثے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر سے ہنستی مسکراتی زندگیوں کو موت کے حوالے کر بیٹھتے ہیں۔۔۔ہم بھی ناں۔۔ ناجانے کب بڑے ہونگے۔

Zakia nayyar

@Nayyarzakia

Leave a reply