تحریک آزادی کشمیر قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے اعلان جہاد کے بعد اب تک جاری ھے۔تقریبا 73 سالوں سے جاری اس تحریک کے متعلق نوجوان نسل کو حقائق کا علم نہیں ھے زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو بہت ہی شوق ھے تو اسے کسی ایک جماعت کے کردار کے متعلق علم ہو گا۔لیکن تحریک آزادی کشمیر میں مختلف سیاسی اور مذہبی حلقوں کا کردار ھے۔اس کے علاوہ کشمیر کی جغرافياui اہمیت کیا ھے اور بھارت نے اس وادی پر قبضہ کیوں کیا ھے اس کے متعلق علم کسی کو نہیں ھے۔اور تو اور اس پب جی دور کی نسل کو یہ بھی نہیں پتہ ہو گا کہ کشمیر کی تحریک آزادی میں پاکستان کیا کردار ادا کر رہا ھے۔اور پاکستان میں جلسے جلوس کشمیر کے لیے کیوں ھے۔اس کے بارے ہماری نوجوان نسل کو ذرہ برابر علم نہیں ھے اور نہ ہی حکومت پاکستان نے کبھی اس کے متعلق سوچا ھے۔اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ایک وقت آئے گا کہ کشمیر بھی کفار لے جائے گے آہستہ آہستہ وہ اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہو جائے گے اور ہمارا نوجوان،اقبال کا شاہین پب جی اور فحاشی کے اڈوں میں ہی گھرا رہے گا۔اس حوالے سے چونکہ ڈاکومنٹری بنانے کی ضرورت ہےہمارے پاکستان میں کشمیر و فلسطین کے حوالے سے ادبی کام کی ضرورت ھے۔تحریک کشمیر کے حوالے سے فاروق اعظم بھائی نے کتاب کو شائع کروایا۔اس ہفتہ میں ان کی کتاب "کشمیر” کا مطالعہ کیا انھوں نے کشمیر کی جغرافیائی،تاریخی،سیاسی معلومات کو عام فہم زبان میں کتابی شکل دی ھے۔

فاروق اعظم بھائی کی کتاب "کشمیر” کمال کا شاہکار ہے۔انھوں نے اعلئ انداز سے تحریک آزادی کشمیر اور اس کی تاریخ کو تفصیل سے بیان کیا۔آج کا المیہ یہ ھے کہ نوجوان نسل کو مسئلہ کشمیر کا پتہ ہی نہیں ھے۔اس لیے کالجز کے طلباء کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ کشمیر کی تاریخ اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے لازوال قربانیاں دینے والوں کو پہچان سکے۔فاروق اعظم بھائی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے سادہ الفاظ میں کشمیر کی تاریخ کو عام فہم بنا کر کتابی شکل دے دی ھے۔میرے خیال سے آج کا جو اہم مسلہ ھے کہ ہر سیاسی اور حکومتی جماعت کشمیر کی تحریک میں اپنے کردار کو پیش کرتی ھے کہ ہم نے کشمیر کے لیے یہ کیا وہ کام کیا۔اس مسئلے کو بھی فاروق اعظم بھائی نے اپنی کتاب میں حل کر دیا ھے انھوں نے باقاعدہ سرخیوں کی شکل میں ہر سیاسی جماعت ،ہر مذہبی جماعت کا تحریک کشمیر میں کردار کو واضح کر دیا ھے۔اس کے علاوہ وہاں کی عسکری جدوجہد کو بھی اپنی کتاب میں قلمبند کیا ھے۔اس کے علاوہ ان عسکری جماعتوں کے قائدین کا بھی مختصر تعارف تحریر کیا ھے۔اس کے علاوہ 1993 میں قائم کردہ آل پارٹیز حریت کانفرنس اور اس کے مختلف دھڑوں کے متعلق بھی لکھا ھے جس کا مجھے علم نہیں تھا اس کتاب کے مطالعے سے پہلے۔مصنف نے اپنی کتاب میں حوالہ جات کو بنیاد بنایا ھے جس میں مختلف کشمیری مصنفین،بین الاقوامی مصنفین کی کتب کے حوالہ جات لکھے ہیں۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد میں اس مقام پر پہنچا ہوں کہ اس کتاب کو کشمیر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایکٹوسٹس کو پڑھنا چاہئے تاکہ وہ بحث و مباحثہ میں حوالہ جات دے سکے۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ایسے نوجوان مصنفین کی پشت پناہی کرے تاکہ ان کا حوصلہ بلند ہو اور یہ ملک و ملت کی قلم کے ذریعے خدمت کر سکے۔اس وقت کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں مخلتف ڈاکومنٹری کو بناتے ہوئے اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ ان لوگوں کو آگے لایا جائے جن کی یہ ڈومین ھے۔اب کشمیر کے حوالے سے ڈاکومنٹری بناتے ہوئے اگر ساحر علی بگا اور آئمہ بیگ کو بلایا جائے جو کہ پوپ سنگر ہیں انھوں نے خاک راہنمائی کرنی ھے

Shares: