ابتدا ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے حال خوب جانتا ہے یہ جملے ہم بچپن میں طارق عزیر مرحوم کے نیلام گھر میں سنا کرتے تھے ۔۔ مگر دوران سفر سے طارق عزیز صاحب کے یہ جملے بولتی آواز سماعت سے ٹکرائی تو لمحہ بھر کو میں رکی اور گاڑی میں چلتے ریڈیو کا والیوم بڑھا دیا۔۔پھر بولنے والا بولتا گیا اور میں سنتی اور سوچتی رہی کہ سماعتوں سے ٹکراتی یہ آوازیں کس قدر سحر انگیز ہیں کہ جسے آپ دیکھ نہیں سکتے مگر آواز سے ایک انسان کی شخصیت کا تصور بنا لینا اور پھر اس آواز سے رشتہ قائم کر لینا کس قدر خوبصورت احساس ہوتا ہے پھر آپکی سماعتیں اس آواز سے اس قدر مانوس ہوجاتی ہیں کہ بولنے والے سے سننے والے کا ایک رشتہ سا بن جاتا ہے۔. کچھ ایسا ہی اس آواز نے بھی کیا ان جملوں کا انتخاب اور ادائیگی ہاتھ پکڑ کر جیسے بچپن کے حسین وقت میں لے گئی تھی۔

ریڈیو کا آغاز کیا تو اس لیے گیا تھا کہ وہ علاقے جہاں باخبر رہنا مشکل ہو وہاں ریڈیو انٹینا جس حد تک ہوسکے دور دراز سے آتی آوازوں کو وہاں کے مکینوں تک پہنچا سکے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ریڈیو ایک ایسا شعبہ بن گیا جس پر خبروں سے لیکر موسیقی تک سب میسر ہے اور ان تمام چیزوں کو پر تاثر طور پر ہم تک پہنچانے کے لیے پریزینٹرز اور جوکیز موجود ہیں ہر ایک اپنی محنت کے بل بوتے پر لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے میں مگن ہے مگر کچھ نوجوان پریزینٹرز ایسے ہیں جنکی محنت نے آج کے نوجوانوں میں ریڈیو سے پیار اور اس شعبے کو سیکھنے سمجھنے پر قائل کردیا ہے

ریڈیو پر طارق عزیز کے جملے خوبصورتی سے ادا کرتا ریڈیو جوکی عمران حسن تھا جنہیں ریڈیو کی دنیا میں مانی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے اس نوجوان نے 2001 سے ریڈیو کو سمجھنا اور جاننا شروع کیا اور 2005 سے ریڈیو سے بطور ریڈیو میزبان اپنا رشتہ جوڑا یہ نوجوان نہ ہی کسی سفارش پر اور نہ کسی نوازش پر آگے بڑھا اس دوران ایف ایم 101,ایف ایم 93,ایف ایم 97,ایف ایم 94.6,ایف جیسے بڑے ریڈیو اسٹیشن پر دل کو چھو جانے والے پروگرامز کامیابی سے کرتے رہے۔آج کل 107.4 پر موسیقی اور معلومات سے بھرپور شو کر رہے ہیں

آج کل 107.4 پر موسیقی اور معلومات سے بھرپور شو کر رہے ہیں۔۔پروگرام میں وطن سے محبت ،بطور شہری اپنی زمہ داریوں کا احساس،معاشرتی عدم برداشت پر میزبان کی بات چیت سننے لائق ہوتی ہے جبکہ پڑوسی ملک کے میوزک کو خیر باد کہنے کے بعد اپنے ملک کی موسیقی کو متعارف کرانا نئےگلوکاروں کو سراہنا انکے گیتوں کو اپنے پروگرام کا حصہ بنانا، گلوکاری کے میدانوں میں پاکستان کے بڑے ناموں کو خراج تحسین پیش کرنا،ابھرتے ہوئے نوجوان گائیکوں کو بطور مہمان پروگرام میں شریک کرنا بھی انکے پروگرام کا لازمی جزو ہے ایک ایسا پروگرام جو معلوماتی بھی ہے اور دلچسپ بھی جو سننے والوں کو دو گھنٹے ریڈیو پر ٹکائی رکھتا ہے۔۔ملکی صورتحال پر بات چیت بھی ہوتی ہے اور اپنے سننے والوں سے براہ راست ٹیلی فون پر چھڑ چھاڑ بھی جبکہ سماجی رابطوں کے شناختی اکاؤنٹس پر ان سے انکے مداح پروگرام بارے رائے کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہیں جسے یہ کھلے دل کے ساتھ سنتے ہیں۔ عمران حسن نے اپنے ریڈیو کے سفر کے دوران کئی سیاستدانوں کے انٹرویوز بھی کیے جن میں وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔

آج ریڈیو کے عالمی دن ہر عمران حسن کا تذکرہ اسلیے بنتا ہے کہ وہ لوگ جنکو اللّٰہ نے خوبصورت آواز اور انداز گفتگو سے نوازا ہے وہ ایسی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں جو انہیں ریڈیو کی دنیا میں کام آسکتی ہے وہ اس شعبے کو بطور روزگار اپنا سکتے ہیں۔۔مگر شرط محنت ہے جیسا کہ اس نوجوان نے بیس سال آواز کی ان لہروں سے مضبوطی سے رشتہ جوڑے رکھا اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے نکھارتے آج ریڈیو کی دنیا کا جگمگاتا ستارہ ہے۔۔اور اپنے سحر انگیز انداز بیاں سے کئی سماعتوں سے نہ ٹوٹنے والا بندھن جوڑ بیٹھا ہے۔جیتے رہیے عمران حسن آپ جیسے بہترین ریڈیو جوکی کیوجہ سے آج کے دور میں بھی ریڈیو سننے والے موجود ہیں دعا ہے کہ اگلے بیس سال بھی عمدہ پروگرام کے ذریعے سماعتوں کا یہ رشتہ آپ سے قائم رہے۔۔

Shares: