مزید دیکھیں

مقبول

ٹڈاپ کرپشن اسکینڈل ،یوسف رضا گیلانی بری

کراچی: کراچی کی وفاقی اینٹی کرپشن عدالت نے سابق...

پاکستان کی معیشت میں بزنس مینوں کا اہم کردار ہے، گورنر سندھ

گورنر سندھ محمد کامران خان ٹیسوری نے گزشتہ روز...

ایکس’ پر ایک دن میں تیسرا بڑا سائبر حملہ، صارفین پریشان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک...

اسلام آباد اور گردونواح میں وقفے وقفے سے بارش شروع

اسلام آباد و گردونواح اورمختلف شہروں میں وقفے وقفے...

دنیا پھر سے دوبلاکس میں بٹ گئی، تحریر: نوید شیخ

یوکراین اور روس کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت پیوٹن نے روسی فوجیوں کو یوکرائن علاقوں میں داخل ہونے کا حکم دے دیا ہے۔ ۔ تو یوکرائن کی سیکیورٹی کونسل نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ ساتھ ہی یوکرائنی وزیر خارجہ نے یہ مطالبہ بھی کردیا ہے کہ مغربی ممالک یوکرین کو روس کے خلاف اسلحہ کی ترسیل مزید تیز کریں۔ ۔ حالات کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر یوکرائن نے روس میں رہنے والے اپنے شہریوں کو کہا ہے کہ وہ فوری طور پر وہاں سے نکل جائیں اور اپنے شہریوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ روس نہ جائیں۔۔ یوکرائن کے اردگرد اگر صورتحال کی بات کی جائے تو اسکی سرحد پر جمع روسی فوجیں، ٹینکوں، توپ خانوں، ہوائی جہازوں سے لیس ہیں اور انھیں بحریہ کی مدد بھی حاصل ہے۔۔ یوں یوکرائن کے گرد جمع فوجیوں کی تعداد کے اندازوں میں یوکرینی سرحد، بیلاروس اور مقبوضہ کریمیا میں موجود فوجیوں کے علاوہ نیشنل گارڈز، ملکی گارڈز اور مشرقی یوکرائن میں روسی حمایت یافتہ باغی بھی شامل ہیں۔

۔ اس حوالے سے برطانیہ کے وزیر دفاع کہہ چکے ہیں کہ روس کی کل افواج کا 60 فیصد حصہ یوکرائن کی سرحد اور بیلاروس میں موجود ہے۔ یوکرائن کے وزیر دفاع نے ان فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ 49 ہزار بتائی ہے۔۔ آپکو یاد ہو تو گذشتہ ہفتے روس کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ اس کی کچھ افواج نے جنوبی اور مغربی فوجی اضلاع میں اپنی مشقیں مکمل کر لی ہیں اور وہ اب واپس بیرکوں میں جا رہے ہیں۔ لیکن نیٹو نے کہا ہے کہ اس نے کوئی ایسا ثبوت نہیں دیکھا ہے۔ ۔ پھر سیٹلائٹ کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرائن کی سرحد کے قریب فوجی یونٹ اب چھوٹے گروپوں میں بٹ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ سرحد کے قریب جنگلوں میں درختوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی روسی افواج کو ایسی تمام سہولیات مہیا کر دی گئی ہیں جو حملے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ان سہولیات میں فیلڈ ہسپتال، مرمتی ورکشاپس، اور کیچٹر ہٹانے والا ساز و سامان شامل ہے۔ ۔ پھر روس نے سکندر میزائل راکٹ لانچر اور سپیشل آپریشن فورسز اور ایئر ڈیفنس کے نظام کو بھی تعینات کردیا ہے۔۔ اس کے علاوہ روس پوری دنیا میں، بحراوقیانوس سے لے کر بحرالکاہل تک بحری مشقوں میں مصروف ہے۔ ان مشقوں میں اسکی بحریہ کے چالیس جنگی اور معاون جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ طیارے اور دس ہزار فوجی شامل ہیں۔ جو روسی جنگی جہاز انگلش چینل سے گزرا تھا وہ بھی Black Sea اور Sea of ​​Azu میں موجود ہے۔ یہ جہاز ٹینکوں اور آرمرڈ گاڑیوں کو میدان جنگ تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔Black Sea میں موجود نو جنگی جہاز کروز میزائل سے لیس ہیں۔ اس کے چار بحری جہاز جو کروز میزائل سے لیس ہیں وہ Caspian Sea میں موجود ہے۔

اس تیاری سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روس نے پانی اور خشکی میں حملہ کرنے والے جہازوں کو کریمیا کے مشرق اور مغرب میں تیار کر رکھا ہے۔ یوں روس یوکرائن پر مشرق، شمال اور جنوب سے چڑھائی کرتے ہوئے پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے ۔ ۔ مگر کئی فوجی ماہرین سمجھتے ہیں کہ یوکرائن پر بڑے حملے اور اس کے بعد اس پر مکمل یا کچھ حصوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے روس کو اس سے زیادہ فوجیوں کی ضرورت ہو گی جو اس نے اس وقت جمع کر رکھی ہیں۔۔ کیونکہ یوکرائن نے بھی اپنی فوج بنا لی ہے اور اس کے علاوہ روس کو عوام کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔۔ اسی حوالے سے امریکی فوج کے چیف آف سٹافmark milley کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی تعداد کے پیش نظر صورت حال انتہائی ہولناک رخ اختیار کر سکتی ہے اور شہری علاقوں کے گلی کوچوں میں لڑائی ہو سکتی ہے۔
۔ پھر مغربی ملکوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کا لڑاکا دستوں کو یوکرائن بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور روس کی کارروائی کے خلاف صرف اقتصادی پابندیوں ہی کا سہارا لیا جائے گا۔۔ نیٹو ملکوں نے یوکرین کو مدد کا یقین دلایا ہے لیکن وہ صرف فوجی مشیروں، ہتھیاروں اور فوجی ہسپتالوں تک ہی محدود ہے۔ اس وقت پانچ ہزار فوجی بلکان کی ریاستوں اور پولینڈ میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ چار ہزار مزید فوجیوں کو رومانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور سلواکیہ بھیجے جانے کا امکان ہے۔۔ روس کے رہنماؤں کے پاس دوسرے ممکنہ اقدامات میں غالباً یوکرائن کی فضاؤں میں پروازوں پر پابندی، بندرگاہوں کا محاصرہ اور جوہری ہتھیاروں کی ہمسایہ ملک بیلاروس میں تعیناتی شامل بھی ہوسکتے ہیں۔۔ روس یوکرائن پر سائبر حملے بھی کر سکتا ہے۔ یوکرائن کی حکومت کی ویب سائٹ جنوری میں بیٹھ گئی تھی اور فروری کے وسط میں یوکرائن کے دو سب سے بڑے بینک حملوں کی زد میں آئے تھے۔۔ پابندیوں کی بات کی جائے تو اس حوالے سے مغربی ممالک کا شدید ردِ عمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ امریکہ ، یورپ سمیت دیگر اتحادیوں نے پہلے مرحلے میں روس پر پابندیاں عائد کرنا شروع کر دی ہیں ۔ سب سے بڑی ڈویلپمنٹ اس سلسلے میں یہ ہے کہ جرمنی نے روس کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے ۔ ۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ مالیاتی منڈیوں تک روسی رسائی کو محدود کر دے گا۔۔ پھر ایک بیان میں آسٹریلوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ تمام شراکت داروں سے مل کر روس کیخلاف کھڑے ہوں گے، پابندیوں میں کچھ روسی افراد پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ روس پر سفری اور مالیاتی پابندیاں بھی لگائی جائیں گی۔۔ جبکہ جاپان نے بھی روس پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی بانڈز کے اجراء پر پابندی اور بعض روسی افراد کے اثاثوں کو منجمد کیا جائے گا۔۔ تو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل Antonio Guterres نےروس کے حالیہ اقدامات کو یوکرائن کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے۔ ۔ پھر روس پر مالی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اب مغربی ممالک کی جانب سے روس میں سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے دو روسی بینکوں VEB اور روسی ملٹری بینک پر تجارتی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ امریکہ کی جانب سے اہم روسی شخصیات اور خاندانوں کے اثاثوں پر بھی پابندیاں متوقع ہیں۔ ۔ پھر امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ پابندیاں روس کے یوکرائن پر حملے کی شروعات ہیں، روس سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں لیکن امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو یوکرائن کی حدود کے ہر انچ کا دفاع کریں گے۔ جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ یوکرائن کا ایک بڑا حصہ الگ کرنے کا اعلان، روسی حملے کا آغاز ہے، اس لیے یوکرائن کو دفاعی ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھیں گے۔۔ ساتھ ہی جوبائیڈن نے دھمکی دی ہے کہ اگر روس نے یوکرائن کے خلاف مزید اقدامات کیے تو امریکہ روس پر پابندیاں بڑھاتا رہے گا۔ یعنی ان پابندیوں سے روسی معیشت کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کیا جائے گا۔

۔ پابندیوں کا انتہائی قدم روس کے بینکنگ نظام کو بین الاقوامی Swift ادائیگی کے نظام سے منقطع کرنا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے امریکی اور یورپی معیشتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔۔ دوسری جانب روسی صدر پیوٹن نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ روس ابھی بھی مغربی ممالک کے ساتھ ۔۔۔ سفارتی حل ۔۔۔ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن روسی شہریوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ۔ اس تمام بحران نے بھارت کو بھی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ تاریخی طور پر انڈیا یوکرائن کے معاملے پر ہمیشہ روس کے ساتھ رہا ہے مگر 2014 کے مقابلے میں اب حالات مختلف ہیں۔ کیونکہ لداخ والے معاملے کو ذہن میں رکھیں تو انڈیا کوچین کے مقابلے میں نہ صرف روس کی بلکہ امریکہ اور یورپ کی بھی ضرورت ہے۔ مگر روس اور مغرب کے دیگر ممالک اس وقت یوکرائن کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کسی فریق کی حمایت کر سکتا ہے نہ ہی خاموش تماشائی بنا رہ سکتا ہے۔ کیونکہ ایک جانب بھارت کے معاشی مفادات ہیں تو دوسری جانب فوجی معاملات میں روس پر انحصار ہے۔ ۔ پھر انڈیا اور امریکہ کے تعلقات 2014 کے مقابلے میں مضبوط ہوئے ہیں۔ اب وہ امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے ۔ اس لیے دہلی پر پہلے سے زیادہ دباؤ ہے۔ اس لیے روس یوکرائن کا تنازعہ جیسے جیسے مزید بڑھے گا تو یہ انڈیا کے لیے بہت بری صورتحال ہو گی۔۔ اس وقت بھارت کسی کے حق میں بھی کو ایسا بیان نہیں دے رہا ہے جس سے اس کی غیرجانبداری ثابت ہو۔ یوں انڈیا کواڈ اتحاد کا واحد ملک ہے جو روسی جارحیت کو نظرانداز کر رہا ہے۔۔ دوسری جانب روس پر مغربی پابندیوں کا انڈیا کے فوجی معاہدوں پر سخت اثر ہوگا۔ یاد رکھیں امریکہ نے اب تک روس سے ایس 400 میزائل خریدنے پر انڈیا پر اپنے CAATSA قانون کے تحت پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔۔ دراصل روس کے یوکرائن کے دو خطوں کو آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کے بعد اب اس کا اگلا اقدام یورپ کے پورے ۔۔ سکیورٹی ڈھانچے ۔۔۔ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

نوید شیخ
نوید شیخhttps://www.baaghitv.com/
نوید شیخ گزشتہ پندرہ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے ٹاپ چینلز میں کام کرچکے ہیں۔ کامران شاہد، انیق ناجی، نادیہ خان کے پروگرامز پروڈیوس کرتے رہے ہیں ۔ آجکل کھرا سچ ود مبشر لقمان کے سینئر پروڈویوسر کے طور پر ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں ۔