سب سے پہلے تو اپنے تمام تر ریاستی جبر اور حکومت زور کے باوجود محسن بیگ کی آج ضمانت منظور ہوگی ہے ۔ کیونکہ جس طرح پولیس نے میڈیکل رپورٹ تبدیل کی ۔ ڈی وی آر پولیس کی موجودگی میں ایف آئی اے لے گئی، گرفتاری کے بعد بھی بار بار محسن بیگ کے گھر پر جو چھاپے مارے گئے اس کے بعد بھی ضمانت ہوجانا اس چیز کا ثبوت ہے کہ حکومت تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کچھ بھی ثابت نہ کرسکی ۔ میں اس معاملے پر صرف گزشتہ سماعت کا ذکر کروں گا جس میں محسن بیگ کو جب عدالت پیش کیا گیا تو اس موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ بیگ صاحب آپ کے پاس کوئی ویڈیو ہے عمران خان کی؟ جس کے جواب میں محسن بیگ کا کہنا تھا کہ ویڈیو تو نہیں ہے صرف اتنا کہوں گا کہ خان تُو تو گیا۔ پاکستانی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا معاملات طے پا گئے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا سوال جو زہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کس کے کس سے معاملات طے ہوگئے ہیں ۔
فی الحال جو دیکھائی دے رہا ہے کہ معاملات طے ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت قطعی طورپرغیر جانبدار یعنی نیوٹرل ہوچکی ہے ۔ جوکہ اپوزیشن کی تیزیوں اور اتحادیوں کے ساتھ میل ملاپ سے بھی دیکھائی دے رہا ہے ۔ امکان یہ ہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد مارچ کے دوسرے ہفتے میں پیش ہو جائے۔ گزشتہ رات مونس الہی کی اسد قیصر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو سے پہلے تو یہ ہی اطلاعات تھیں کہ مسلم لیگ ق اور ترین گروپ کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے نہ صرف آمادگی ظاہر کی ہے بلکہ چوہدری پرویز الٰہی کو اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ مسلم لیگ ن کو بھی اس پر جلد آمادہ کر لیا جائے گا۔ آئندہ دو تین دن میں شہباز شریف نے اس حوالے سے جواب بھی دینا تھا۔ مگر جیسے پہلے ایک اہم موقع پر مونس الہی نے تقریر کرکے اپوزیشن کی امیدوں پر پانی پھیرا تھا اب پھر سے انھوں نے اسپیکر اسد قیصر سے کہا ہے کہ سیاسی بات چيت اور مشاورت جاری ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی فیصلہ کیا گيا ہے، وہ اپنے وعدوں کے پابند ہیں اور مکمل احترام کریں گے۔
۔ دوسری جانب قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گيا ہے کہ ٹیلی فونک گفتگو میں مونس الٰہی نے اسد قیصر کو یقین دلایا کہ حکومت کے اتحادی ہیں اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن سے تعاون کی یقین دہانی کا غلط تاثر دیا جا رہا ہے، اپوزیشن رہنماؤں سے مسلم لیگ ق کے رہنماؤں کی ملاقاتیں سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔ اس بیان کے بعد جو چیز سمجھ آئی ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن ان کے ساتھ ساتھ اتحادی بھی کچھ کم نہیں وہ بھی کریز کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں ۔ اور ریٹ لگوارہے ہیں کہ کہاں سے بہتر آفر ملتی ہے ۔ اور ڈیل مزید سے مزید بہتر ہوتی ہے تو کرلیا جائے ۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نیوٹرل ہوچکی ہے تو یہ اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے ۔ مسئلہ صرف ڈیل کا ہے کہ کون کتنی اچھی ڈیل سے اتحادیوں کو نواز سکتا ہے ۔ فی الحال جو اپوزیشن کا پلان ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ پہلے پیپلزپارٹی کو دینے پر مسلم لیگ ن آمادہ تھی لیکن اب پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو دی جائے تو وزیراعظم مسلم لیگ سے ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف چونکہ پہلے تحریک اعتماد لانے پر اتفاقِ رائے ہوچکا ہے۔ اس لیے ممکنہ طور پر اسپیکر قومی اسمبلی پیپلزپارٹی کی طرف سے ہوسکتا ہے۔۔ وزیراعلیٰ پنجاب، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا تو طے ہے لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے مواخذے پر بھی بات چیت ہورہی ہے اور مبینہ طور پر ایسا ہونا بھی نہیں ہے۔
دوسری طرف مارچ کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کا بھی امکان ہے۔ یہ فیصلہ نہایت اہم ہوسکتا ہے اور ممکنہ طور پر اس کے اثرات تحریک عدم اعتماد وغیرہ پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ کب ہوگا کیسے ہوگا کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ اتنی رازداری میں نے پہلے نہیں دیکھی ۔ حالانکہ اس بار تو لگتا ہے کہ حکومت کی اپنی ایجنسیاں بھی چوہا رپورٹس نکلوانے میں ناکام ہوگی ہیں ۔ دراصل اس کی وجہ ہے ۔ کہ اپوزیشن آپ میں بھی اور جس سے بھی ملاقات کررہی ہے آمنے سامنے بیٹھ کر۔۔ کررہی ہے ۔ ٹیکنالوجی جیسے فون ، واٹس ایپ وغیرہ کا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے کہ کہیں کوئی چیز ٹیپ نہ ہوجائے ۔ اس لیے اصل پلان ہے کیا اور یہ کب سامنے آئے گا کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے ۔ اب تک جتنی بھی چیزیں سامنے آئی ہیں یہ حالات اور خبروں کو دیکھتے ہوئے تجزیہ ہے یا پھر اندازے جو کہ غلط بھی ہوسکتے ہیں ۔ مگر یہ غلط ہو یا صحیح اپوزیشن کے میل ملاپ نے حکومت کی راتوں کی نیند اڑ کر رکھ دی ہے ۔ کم ازکم اب یہ اپنے ایم این ایز ، ایم پی ایز اور اتحادیوں کی بات بھی سننے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اور ان کے کام کرنے کو بھی راضی دیکھائی دیتی ہے ۔ ۔ یہاں تک کہ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ حکومت ایم کیو ایم کو گورنر سندھ اور مزید ایک وزارت دینے تک کو راضی ہے ۔ ایسی ہی عمران خان صاحب پنجاب میں عثمان بزدار تک کی قربانی دینے کو تیار ہیں ۔ کہ وزارت اعلی پنجاب کا تاج دینے سے ق لیگ راضی ہوتی ہے تو ان کو کرلیا جائے ۔ پر اگر حکومتی اراکین یا اتحادی حکومت سے راضی نہیں ہوپاتے تو ذرائع کے مطابق پلان یہ ہے کہ حکومت کے یہ اراکین اسمبلی اجلاس میں جو عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے بلایا جائے گا اس میں اپنے استعفے پیش کریں گے ۔ عین اسی وقت اپوزیشن وزیراعظم سے کہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ پھر وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہو جائے گا۔ مگر اس فارمولے میں قباحت یہ ہے کہ اسپیکر اسمبلی استعفی کو قبول نہ کرے ۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حکومتی ممبران اس دن غائب ہوجاتے ہیں یعنی اسمبلی پہنچ ہی نہیں پاتے ۔ اور اپوزیشن اتحادیوں کے ساتھ نمبر گیم کو پورا کرکے وار کردے ۔
مگر اس حوالے سے بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت یہ سب کچھ کرنے دے گی۔ کیونکہ اجلاس کے بارے میں پہلے سے ہی کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی ہال کی تزئین و آرائش کا کام جاری ہے، اس لیے وہاں اجلاس کا انعقاد مشکل ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے یہ بھی کہا ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ آئینی طور پر اسمبلی کا اجلاس کہیں اور منعقد ہوسکتا ہے یانہیں؟۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس تحریک کو پیش کرنے کیلئے اجلاس بلانے کی تاریخ مقرر ہونے کے فوری بعد یا اس سے قبل بڑے پیمانے پرگرفتاریاں شروع کردے۔ جن میں بعض اہم شخصیات بھی شامل ہوسکتی ہیں تاکہ عدم اعتماد کی تحریک وغیرہ تک بات ہی نہ پہنچ سکے۔ لیکن اس سے اپوزیشن کو مزید کھیلنے اور حکومت کے کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔۔ یوں اگر حالات کو دیکھا جائے تو حکومت اور اپوزیشن دنوں نے اپنی تیاری پوری رکھی ہوئی ہے ۔ جیسا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن متحرک ہے تو سو ہم بھی نہیں رہے۔ ایک فارمولہ یہ بھی ہے کہ صدر پاکستان کے موخذاے ، سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد اور دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب کے خلاف عدم اعتماد ایک ساتھ پیش کر دیا گیا تو پھر سب کا جانا طے ہوگا ۔ ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے یا حکومتی جماعت کے اراکین کے استعفے پیش ہو جائیں تو حکومت کے پاس وہ کون سا آپشن ہے جس کی بنا پر وہ تیار ہے ۔ تو وہ آپشن صرف ایک ہی ہے کہ وزیراعظم کو چونکہ پارلیمنٹ کی طرف سے اعتماد حاصل نہیں اس لیے وہ اسمبلی توڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ جس کے بارے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے تقریبا تمام ہی جید صحافی رپورٹ کرچکے ہیں کہ کپتان نے چپکے سے دو فائلوں پر دستخط کرواکررکھ لیے ہیں ایک کسی اہم تعیناتی بارے ہے تو دوسری قومی اسمبلی سے متعلق۔۔۔ ۔ پر یاد رکھیں اصل کھیل تو تب شروع ہوگا جب یہ حکومت گھر جائے گی ۔ ابھی توصرف ٹریلر چل رہا ہے پوری فلم تو باقی ہے ۔








