‏پاکستان کےبھارت کیخلاف آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے3سال مکمل

اسلام آباد :پاک فضائیہ کا 27 فروری 2019 کا ” آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ” بھارتی ایئر فورس کے دو طیاروں کو مار گرانے اور ایک پائلٹ کی گرفتاری کے تین سال گزرنے کے بعد بھی بھارتی ایئر فورس کے لئے مسلسل ہزیمت اور عبرت کا باعث ہے جس نے نہ صرف پاک فضائیہ کی بھارتی ائیر فورس پر فضائی برتری کو ثابت کیا بلکہ اس کارروائی کے دوران ایٹمی اسلحہ سے لیس بھارت کی فوجی کمزوریاں بھی بری طرح بے نقاب ہوئیں۔

۔بھارت کی جانب سے 14 فروری 2019 کو پلوامہ میں ایک جھوٹے فلیگ آپریشن کے بعد پاکستان کے اندر حملہ کرنے کی ناکام کوشش نے پاک فضائیہ کی فوجی اور تکنیکی برتری قائم کی اور ہندوستانی فوجی طاقت کے بت کو پاش پاش کر دیا۔14 فروری 2019 کو ایک نوجوان کشمیری لڑکے نے کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم سے تنگ آکر بارود سے بھری گاڑی پلوامہ میں بھارتی پیرا ملٹری پولیس کی 78 بسوں کے قافلے پر چڑھا دی جس میں سی آر پی ایف کے 40 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ حملے کے چند لمحوں بعد ہی بھارتی میڈیا اور حکومت نے کسی بھی قسم کی تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان پر الزام لگا دیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے دہلی کی جانب سے قابل عمل ثبوت فراہم کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ اگر حملہ کیا گیا تو پاکستان جوابی کارروائی کرے گا۔

اس کے باوجود بھارت نے سرحد پار سے پاکستانی حدود میں ایک خیالی دہشت گردی کے تربیتی کیمپ پر فضائی حملہ کرنے کا انتخاب کیا۔بھارتی فوج کے سرحد پار ہدف پر حملہ کرنے اور خبر لیک ہونے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے بھارتی حکام نے بالاکوٹ پر حملے کو آپریشن بندرکا نام دیا۔

لفظ “بندر” کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ہندو مذہب میں بندروں کو ایک مقدس مقام حاصل ہے اور یہ ہندو مذہب کے مذہبی افسانوں میں ایک کہانی کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ہنومان، ایک دیوتا جو بندر سے مشابہت ظاہر کرتا ہے ۔ خفیہ طور پر لنکا میں داخل ہوا اور اسے زمین پر جلا دیا۔ 26 فروری 2019 کوبھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ کے قریب پاکستان کے اندر حملہ کیا، جس میں ایک دینی مدرسے کو نشانہ بنایا گیا جسے ہندوستان نے عسکریت پسندوں کے کیمپ کے طور پر پیش کیا اور 300 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا لیکن دعووں کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے ۔

اس آپریشن کو ایئر بورن ارلی وارننگ سسٹم کی مدد حاصل تھی۔ وہ بموں پر سمیلیٹر اور پری فیڈ کوآرڈینیٹس پر مشق کرنے کے باوجود اپنے پے لوڈ کو ہدف پر پہنچانے میں ناکام رہے۔ہندوستان ٹائمز کے مطابق 26 فروری 2019 کو صبح 3.45 بجے اس وقت کے بھارتی ایئر چیف بی ایس دھنوا نے ایک محفوظ فکسڈ لائن نیٹ ورک پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو ٹیلی فون کیا اور کہا بندر مارا گی۔

لیکن دن کے اختتام پر، حقیقت نے ثابت کیا کہ اس نے صرف انہیں بندر بنایا ہے۔فضائی حملہ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ بھارت نے بلاجواز جارحیت کا ارتکاب کیا ہے جس کا پاکستان اپنی مرضی کے وقت اور جگہ پر جواب دے گا، مسلح افواج اور پاکستانی عوام ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہیں۔

بھارتی فضائیہ نے ایک پہاڑی کے قریب اپنا پے لوڈ پھینکا جس میں ایک کوا ہلاک ہوا اور پائن کے قیمتی درختوں کو نقصان پہنچا جس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے بار ہا کہا کہ انہیں اس سے دکھ پہنچا ہے کیونکہ یہ درخت ان کے دل کے بہت قریب تھے ۔

بالاکوٹ میں بھارتی فضائیہ کے حملے کی ناکام کوشش کے بعد جلی ہوئی زمین اور درختوں سے متاثر ہونے والی جگہ کا ملٹری اتاشی اور غیر ملکی میڈیا نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور مقامی گائوں کے بچوں کے قریبی مدرسے میں بھی گئے جو کہ خوش قسمت تھے کہ بھارتی لاپرواہی سے بچ گئے۔

بھارت نے دعویٰٰ کیا کہ اس کی فضائیہ 300 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے جبکہ پاکستان اور کئی بین الاقوامی مبصرین نے اس دعوے کی نفی کی ہے کیونکہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور بم واضح طور پر ہدف سے دور گرے تھے جو درحقیقت دہشت گردوں کا کیمپ نہیں تھا بلکہ گائوں کے بچوں کے لیے ایک عام دینی مدرسہ تھا۔لندن میں مقیم جینز انفارمیشن گروپ کے تجزیہ کار راہول بیدی نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ پاکستان کسی عسکریت پسند گروپ کی طرح پراکسی کے ذریعے نہیں بلکہ روایتی طور پر رد عمل ظاہرکرنے کا پابند ہے ۔

وہ کہاں اور کب رد عمل کا اظہار کرتے ہیں جو صرف پاکستانی جانتے ہیں۔اخبار نے کہا کہ کہ اس موسم بہار میں بھارت میں انتخابات کے دوران اوربھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو دوبارہ انتخابی معرکے کا سامنا ہے، ووٹرز نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کشمیر کے حملے کا جواب طاقت سے دے۔ بیدی نے کہا انہوں نے جو مارا وہ ابھی قیاس آرائیاں ہیں۔

یہ کسی بھی چیز سے زیادہ سیاسی علامت ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کو انتخابات سے پہلے ہندوستان کی طرف سے کچھ قابلِ عمل اقدام دکھانا تھا۔بیدی نے کہا کہ انہوں نے جو مارا وہ ابھی قیاس آرائیاں ہیں۔

یہ کسی بھی چیز سے زیادہ سیاسی علامت ہے۔بھارتی وزیراعظم مودی کو انتخابات سے پہلے ہندوستان کی طرف سے کچھ قابلِ عمل اقدام دکھانا تھا۔ پاکستان ایئر فورس نے 27 فروری 2019 کو جوابی حملہ شروع کیا جس کا مقصد بنیادی طور پر پاکستان کے عزم کا مظاہرہ کرنا تھا۔ زمین پر جانی نقصان سے بچنے کے لیے احتیاط سے فضائی حملہ کیا گیا ۔

مختصر فضائی تصادم کے دوران پاک فضائیہ نے بھارتی ایئرفورس کے دو طیاروں کو مار گرایا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ایس یو 30کا ملبہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گرا اور اس کا پائلٹ ہلاک ہو گیا، جبکہ میگ21 کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان جن کا طیارہ پاکستان کی حدود میں گرا زندہ پکڑ لیا گیا۔

بڑے دشمن کے خلاف آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ میں پاک فضائیہ کی کامیابی کو اب ہر سال سرپرائز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔کئی گھنٹوں بعد پریشان بھارتی ایئر فورس نے سپائیڈر ایئر ڈیفنس سسٹم والے اپنے ہی ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا جس میں بھارتی ایئرفورس کے چھ اہلکار اور ایک شہری ہلاک ہو گیا۔

ہندوستان نے دعوی کیا کہ اس کے ایک مگ 21 نے پاکستان کے ایف16 طیارے کو مار گرایا تھا جس کی تردید بھی بااثر فارن پالیسی میگزین نے امریکی محکمہ دفاع (ڈی او ڈی )کے عہدیداروں کے انٹرویوز کی بنیاد پر کی تھی جنہوں نے تصدیق کی تھی کہ کوئی ایف16 لاپتہ نہیں ہوا تھا۔

میگزین کے مطابق، پاکستان نے اس واقعے کے بعد امریکہ کو اپنے ایف-16 طیاروں کی جسمانی طور پر گنتی کرنے کے لیے مدعو کیا ،جیسا کہ اینڈ یوزر معاہدے کے حصے کے طور پرجب کہ غیر ملکی فوجیوں کی فروخت کے معاہدے کو حتمی شکل دینے پر دستخط کیے گئے۔

ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ تنازعہ کی وجہ سے کچھ طیارے فوری طور پر معائنہ کے لیے دستیاب نہیں تھے، اس لیے امریکی اہلکاروں کو تمام جیٹ طیاروں کا حساب دینے میں چند ہفتے لگے۔

لیکن اب گنتی مکمل ہو چکی ہے اور تمام طیارے موجود تھے اور ان کا حساب لیا گیا تھا، اہلکار نے کہا۔جہاں ایک طرف بھارت کی جانب سے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا تھا اور اسے نئی اقدار قرار دیا جا رہا تھا، لیکن دوسری طرف بھارت کی سینئر قیادت نے ناکامی کا ذمہ دار رافیل جیسے طیارے کی عدم دستیابی کو قرار دیا جس کے مطابق ان کے نزدیک بالاکوٹ حملے کا نتیجہ بدل جاتا۔یہاں تک کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایئر فورس کی ناکامی کا اعتراف کیا اور انڈیا ٹوڈے پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پورا ہندوستان کہہ رہا ہے کہ اگر ہمارے پاس رافیل ہوتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔

پاکستان کے ردعمل کا مقصد جنگ کو روکنا اور نیوکلیئر ڈیٹرنس قائم کرنا تھا، جس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کشیدگی کی شدت کو مزید نہ بڑھا سکا اور پیچھے ہٹ گیا۔ اس تصادم نے پاک فضائیہ کی بھارتی فضائیہ پر فضائی برتری ثابت کر دی بلکہ دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس طاقتوں کے درمیان روایتی تذویراتی توازن کو بھی بحال کیا۔27 فروری کو پاک فوج کے میڈیا ونگ نے کہا کہ پاکستان ایئر فورس نے ایل او سی پر چھ اہداف کو نشانہ بنایا۔

میجر جنرل عبدالغفور نے اسے کسی فوجی ہدف پر حملہ نہ کرنے اور کسی بھی قسم کے نقصان سے بچنے کا ایک شعوری فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر منتخب کیے گئے اہداف میں سے ایک ملٹری ایڈمنسٹریٹو کمپلیکس تھا، تاہم پی اے ایف کمانڈ نے اسے نشانہ بنانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ہمارے اہداف میں کامیابی کے نتیجہ میں کوئی انسانی زندگی متاثر نہیں ہوئی۔

ہم نے اپنی حدود میں رہ کر چھ اہداف کولاک کیا اور ہم نے حملہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ حملوںکا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہمارے پاس جواب دینے کی صلاحیت اور ارادہ ہے، لیکن ہم نے سوچ سمجھ کرکشیدگی کے راستے سے گریز کیا۔پاکستان جنگ پر زور نہیں دے رہا۔ ہم نے اپنے اہداف کو کھلی فضا میں رکھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم آسانی سے اصل اہداف حاصل کر سکتے تھے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔

ایک دن بعد وزیراعظم عمران خان نے 28 فروری 2019 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ میں کل اعلان کرتا ہوں کہ امن کی ہماری خواہش اور مذاکرات کے لیے پہلے قدم کے طور پر پاکستان ہماری تحویل میں موجود بھارتی فضائیہ کے افسر کو کل رہا کرے گا۔

ان کے اس فیصلے کو سرکردہ عالمی رہنماں نے امن کی خواہش قرار دیا۔ونگ کمانڈر ابھی نندن کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا جنیوا کنونشن کے مطابق، نیا لباس اورچائے کا مشہور کپ فراہم کیا گیا، جس پر انہوں نے تبصرہ کیا تھا،چائے لاجواب تھی۔ انہیں یکم مارچ 2019 کو واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا۔

دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس مختلف ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے معتبر روایتی ردعمل ہیں – جسے ‘Quid Pro۔ Quo Plus’ کی پالیسی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے نہ صرف پاکستان کی جوہری ڈیٹرنس کی ساکھ کو تقویت دی ہے بلکہ روایتی ڈیٹرنس پر اعتماد بحال کرنے میں بھی مدد کی ہے۔

فروری 2019 میں پاک فضائیہ کے ہاتھوں ذلت کا سامنا کرنے کے بعدبھارت نے یہ سمجھے بغیر کہ یہ دراصل مشین کے پیچھے آدمی ہے اور اس کے مضبوط اعصاب اہم ہیں۔ ایک بار پھرہتھیاروں اور گولہ بارود کی خریداری کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بہترین خلاصہ پیش کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے انہیں ایک خون آلود ناک دیا اور یہ اب بھی انہیں تکلیف دے رہا ہے۔

Comments are closed.