بھارت میں زرعی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کا خدشہ: قحط پیدا ہوسکتا ہے:اقوام متحدہ

0
52

نئی دلی:بھارت میں زرعی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کا خدشہ:اگلے چند سالوں میں قحط پیدا ہوسکتا ہے:اطلاعات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث بھارت میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کا خدشہ ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے بھارت کے ساحلی علاقوں اور ہمالیہ سے متصل خطے بری طرح متاثرہوں گے ۔

بھارت کے متعلق یہ انکشاف اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے برے میں بین الحکومتی پینل کی رپورٹ میں کیاگیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اگر بھارت نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں تاخیر کی تو اس تبدیلی کی شدت پوری دنیا کے لیے بہت مہلک ثابت ہوگی۔ رپورٹ میں بھارت میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

آئی پی سی سی کی رپورٹ تیار کرنے والوں میں سے ایک انجل پرکاش نے کہا کہ آئندہ سال میں شہری آبادی کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگااور اگلے 15 برس میں ملک کی 60 کروڑ کی آبادی شہروں میں مقیم ہو گی جو کہ موجودہ امریکہ کی آبادی سے دوگنی ہو گی۔ بھارت کی ساحلی پٹی 7500کلومیٹر پر محیط ہے۔ ممبئی، کولکتہ، چنائی، وشاکھاپٹنم، پوری اور گوا جیسے علاقوں میں زیادہ گرمی پڑ سکتی ہے۔ ان علاقوں کو سطح سمندر بلند ہونے کی وجہ سے سیلاب جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اوران علاقوں میں سمندری طوفان کا بھی خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے برے میں بین الحکومتی پینل کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف آبادی کو خطرات لاحق ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ماحولیاتی نظام میں بہتری نہیں ہورہی ہے ۔ اگر درجہ حرارت 1-4ڈگری سیلسیس بڑھنے کا اندازہ لگایا جائے تو بھارت میں، چاول کی پیداوار میں 10سے 30فیصد تک ، جب کہ مکئی کی پیداوار میں 25سے 70فیصد تک کمی ہو سکتی ہے ۔

سائوتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ زراعت اور خوراک کے نظام سے متعلق خطرات بتدریج بڑھیں گے، جس کے پورے خطے پر مختلف اثرات ہوں گے۔رپورٹ میں لوگوں کے لیے اس خطرے سے نمٹنے اور اپنی زندگی کے حالات کو بہتر بنانے کے طریقے بھی بیان کیے گئے ہیں۔رپورٹ کو 195 ممالک نے منظور کیاہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں گرمی اور نمی کی مقدار بڑھے گی اور یہ انسانوں کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ ہندوستانی شہر شدید گرمی، شہری سیلاب، سطح سمندر میں اضافے کے مسائل اورطوفانوں کا شکار رہیں گے۔ اس صدی کے وسط تک بھارت کو ساحلی سیلاب کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں جنوبی ہندوستان کے تلنگانہ میں پرانی پانی کی ذخیرہ اندوزی کی ٹیکنالوجی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 67 ممالک کے 270 سے زائد سائنسدانوں نے تیار کی ہے اور اسے 195 حکومتوں نے منظور کیا ہے۔ رپورٹ سے ظاہر ہوتاہے کہ بگڑتی ہوئی آب و ہوا کے اثرات دنیا کے ہر حصے میں تباہ کن ہیں اور وہ اس سیارے پر موجود ہر جاندار چیز کو متاثر کرتے ہیں یعنی انسان، جانور، وہ پودوں اور پوری ماحولیات کو متاثر کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 3ارب60کروڑکی آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر پڑ سکتا ہے۔ اگلی دو دہائیوں میں دنیا بھر میں درجہ حرارت میں 1.5 سینٹی گریڈ تک اضافے کا امکان ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے غذائی تحفظ، آبی قلت، جنگلات میں لگنے والی آگ، صحت، نقل و حمل کا نظام، شہری انفراسٹرکچر، سیلاب جیسے مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔یہ رپورٹ آئی پی سی سی کی چھٹی تشخیصی رپورٹ کی دوسری قسط ہے۔ چھٹی رپورٹ اس سال مکمل ہو جائے گی۔

Leave a reply