اسلام آباد : فضل الرحمان کی ‘خوشخبری’اوربہارسے بیزاری کے بیان پرفواد چوہدری کا چیلنج ،اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی جانب سے آئندہ 48 گھنٹوں میں بڑی خوشخبری پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ مولانا ایسی خوشخبریاں پہلے بھی کئی بار سنا چکے ہیں اپوزیشن کےپاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ عدم اعتمادلاسکیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے فوادچوہدری نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس نمبرز پورے ہوتے تو حکومت میں ہوتے تحریک آئی تودیکھ لیں گےیہ کہاں کھڑےہیں اورہم کہاں ہیں، تحریک عدم اعتماد آنے دیں کوئی پرواہ نہیں ہم تگڑےہیں۔
فوادچوہدری نے کہا کہ اپوزیشن کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے وزیراعظم کا امیدوار کون ہے ایک کہتا ہے الیکشن کرادیں دوسرا کہتا ہے ہمیں ڈیڑھ ڈیرھ سال ملیں اپوزیشن ایک ڈرامہ ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات نے واضح کیا کہ پرویزالٰہی نےکہا ہم آپ کےاتحادی ہیں پرویزالٰہی سےآج صبح بھی بات چیت ہوئی ہے پہلےبھی ساتھ الیکشن لڑےتھےآئندہ بھی لڑیں گے، ق لیگ اتحادی ہےاس لئےتوچیمہ صاحب وزیر ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگلے دو سے تین دن بہت اہم ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک کی سو فیصد کامیابی کا یقین ہے
اسلام آباد میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن قیادت اپنا ہوم ورک مکمل کرچکی ہے۔اگلے 2 سے 3 دن بہت ہی اہم ہیں، ہوسکتا ہے اگلے 48 گھنٹوں میں بڑی خوشخبری آجائے گی۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں، حکومتی اتحادیوں سے بھی ہم سب رابطے میں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اور اجلاس کی ریکوزیشن دونوں ہی پر غور ہورہا ہے، ہماری لیگل ٹیم رابطے میں ہے، سارے امور کو دیکھا جارہا ہے۔
اس پر جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کیا آپ کو سب کچھ بتادیں؟ اتنا کافی ہے اب اپوزیشن میں کسی نکتے پر کوئی اختلاف نہیں۔ اپوزیشن تمام حل طلب امور پر اتفاق رائے کرکے بہت آگے پہنچ چکی، اپوزیشن نے اپنے تمام اراکین اسمبلی کو اسلام آباد فوری پہنچنے کی ہدایت کردی۔
فضل الرحمن نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہے، اپوزیشن جماعتوں کا موجودہ حکومت کو گرانے پر اتفاق ہے۔ حکومت گرانے کے بعد نئی حکومت کے قیام سے متعلق ابھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ جب وہ مرحلہ آئے گا تو اس پر بھی فیصلہ کر لیا جائے گا، ہمارا فوکس ہے کہ خزاں جائے، بہار آئے یا نہ آئے








