مزید دیکھیں

مقبول

آئندہ ہفتے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکان

اسلام آباد: آئندہ ہفتے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں...

آفاق احمد کے خلاف کیس کی سماعت 25 مارچ تک ملتوی

کراچی: سٹی کورٹ کراچی میں آج چیئرمین مہاجر قومی...

سندھ کے سرکاری ملازمین کو ایڈوانس تنخواہیں دینے کا فیصلہ

حکومت سندھ نے صوبے کے تمام سرکاری ملازمین کو...

پنجاب میں آوارہ کتوں کو جان سے مارنے پر احتجاج کا اعلان

لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں آوارہ کتوں...

لاہور سے لندن تک ، سب ایک صفحہ پر،تحریر: نوید شیخ

۔ اس وقت لندن اور لاہور میں ملاقاتوں کے سلسلے جاری ہیں ۔ اندازہ ہے کہ یہ ملاقاتیں رنگ لے آئیں تو تبدیلی اسلام آباد میں ہوگی ۔ ۔ کیونکہ لندن میں بدھ کو علیم خان کی نواز شریف سے اور جمعرات کو جہانگیر ترین سے ملاقات ہوگئی ہے ان ملاقتوں میں کیا طے ہوا ؟۔ کل پاکستان ایک اندھے کنوایں گرتا گرتا بچا ہے ۔ جو کچھ پارلیمنٹ لاجز میں جو کچھ ہوا صورتحال مزید بھی خراب ہوسکتی تھی ۔ مگر حکومت نے ہوش کے ناخن لیے اور ممبران اسمبلی سمیت تمام گرفتار لوگوں کو رہا کر دیا ۔ یوں مولانا فضل الرحمان نے ملک بھر میں احتجاجی کال واپس لے لے ۔ ورنہ رات سے ہی دیکھائی دینا شروع ہوگیا تھا کہ جمعہ کے روز پورا ملک بند ہوگا ۔ ۔ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا ایک آڈیو پیغام بھی چل رہا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں اور عوام کا شکریہ کہ پورے ملک کو ایک گھنٹے سے کم وقت میں جام کر دیا، کارکنوں اور عوام کو اس فتح پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، صبح ہونے سے پہلے ہی تمام ممبران قومی اسمبلی اور کارکن رہا ہوچکے ہیں۔ اب کارکنوں کی رہائی کے لیے سڑکوں پر آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔۔ دوسری جانب شہباز گل کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اپنے بندوں کو چھڑوانے کے لیے معافیاں مانگتے رہے۔ جے یو آئی کے کارکنوں اور ایم این ایز کو آج صبح شخصی ضمانت اور ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے بعد رہا کر دیا گیا۔

۔ جو بھی جیتا یا ہارا اس بحث سے ہٹ کر اچھی بات یہ ہے کہ لڑائی جھگڑا خوش اسلوبی سے ٹل آگیا ہے ۔ اب خبریں یہ ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک تک پارلیمنٹ لاجز اور قومی اسمبلی کی سیکورٹی کے معاملات رینجرز اور ایف سی دیکھیں گی ۔ ۔ دوسری جانب لندن سے اہم خبر سامنے آگئی ہے ۔ عبدالعلیم خان کی نواز شریف سے خفیہ ملاقات ہوگئی ہے ۔ یوں اب یہ خفیہ نہیں رہی ہے ۔۔ تفصیل اسکی کچھ یوں ہے کہ ملاقات نواز شریف کے گھر پر مقامی وقت کے مطابق ساڑھے چھ بجےہوئی، یہ تین گھنٹے طویل ملاقات تھی۔ ۔ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے بیٹے بھی ملاقات میں موجود تھے۔ جبکہ لندن میں ہی موجود پی ٹی آئی رہنما جہانگیرترین ملاقات میں موجود نہیں تھے۔۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ علیم خان نے لندن آنے سے قبل شہباز شریف سے بھی لاہور میں ملاقات کی تھی۔۔ ملاقات میں سیاسی صورتحال سمیت وزیراعلی پنجاب کو تبدیل کرنے سے متعلق اہم معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ دونوں شخصیات نے نمبرنگ کیساتھ ساتھ تحریک عدم اعتماد وزیراعلی پنجاب کے خلاف لانے سے متعلق معاملات کا بھی جائزہ لیا۔۔ علیم خان نے نواز شریف کو بتایا کہ ان کے ساتھ تین سال میں کیا ہوتا رہا اور انکی اپنی جماعت پی ٹی آئی نے ان کو کس طرح نشانہ بنایا۔ ۔ پھر ذرائع کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ علیم خان نے پی ٹی آئی ایم پی ایز کو بھی ن لیگ کے ٹکٹ دینے کا کہا ہے ۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ پھر ن لیگ کے لوگوں کا کیا بنے تو اس حوالے سے فارمولہ یہ طے ہوا ہے کہ جو بھی لوگ دونوں جانب سے رہ جائیں گے ان کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا جائے گا ۔ ۔ جبکہ علیم خان کی ن لیگ میں شمولیت کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔۔ اب جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کا اکٹھے ایک دو روز میں پاکستان آنے کا امکان ہے، دونوں شخصیات پاکستان واپس آکر پاور شو کریں گی اور مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی جائے گی۔۔ جبکہ ق لیگ کی جانب سے اطلاعات ہیں کہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں وہ اعلان کر دیں گے کہ وہ کس کا ساتھ دیں گے ۔ جس کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ صورتحال مزید واضح ہوجائے گی ۔۔ پھر اس حوالے سے طارق بشیر چیمہ نے دعویٰ کیا ہےکہ وزرا نے انہیں بتایا کہ وزیراعظم عثمان بزدار کو بدلنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ ۔ طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ ہم نے وزرا سے سوال کیا کہ ایسا کب ہوگا؟ جس پر وزرا نے بتایا کہ پہلے وفاق کی عدم اعتماد گزرجائے۔۔ ذرائع کے مطابق طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ ہم نے وزرا سے کہا کہ کیا حکومت نے ہمیں بچہ سمجھا ہے، کیسے یقین کر لیں کہ وفاق میں عدم اعتماد کے بعد حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے؟ اپوزیشن کی جانب سے ہمیں وزیراعلیٰ کی پیشکش ہے مگر حکومت کی طرف سے ہمیں لولی پاپ ہے۔۔ طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھاکہ وزیر اعظم کو چیزیں سیریس لینا چاہئیں، انہوں نے انڈر 16 ٹیم میدان میں اتاری ہوئی ہے،ہمیں اگلے 48 گھنٹو ں میں فیصلہ کرنا ہے۔ پارٹی میں حتمی فیصلے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

۔ کل عمران خان کے دورہ لاہور کے دوران بھی اس حوالے سے پہلے خبریں یہ ہی سامنے آئیں ۔ کہ عثمان بزدار کو ہٹا دیا جائے گا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ عمران خان کسی صورت عثمان بزدار کو ہٹانا نہیں چاہتے ہیں ان کے خیال میں گھر جائیں گے تو اکٹھے جائیں گے اور حکومت کریں گے تو اکٹھے کریں گے ۔ اگر بہت ضروری بھی ہوا تو پھر بھی نیا وزیر اعلی پی ٹی آئی سے ہی ہوگا ۔ اس سلسلے میں کل عمران خان نے جس جس سے بھی ملاقات کی اس کو یہ ہی باور کروایا کہ آپ میرے ساتھ ساتھ عثمان بزدار کے ساتھ بھی کھڑے ہوں ۔ ۔ یوں پی ٹی آئی کی جانب بتایا یہ جارہا ہے کہ فی الحال اس کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک پر ہے اور وہ بزدار ایشو سے بعد میں نمٹے گی۔۔ پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے بات کی جائے توق لیگ کے ساتھ جیسے ہی علیم خان اور جہانگیر ترین واپس پہنچ کر اعلان کریں گے اس سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں ۔ البتہ جس طرح کے بیانات اور ملاقاتوں کی خبریں ق لیگ کی جانب سے موصول ہو رہی ہیں اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ عثمان بزدار کا گھر جانا طے ہے ۔ میرے حساب سے علیم خان اور جہانگیر ترین جتنا آگے جا چکے ہیں۔ یہاں سے واپسی ممکن نہیں ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی کو اپنوں نے مروانا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ ۔ ویسے تو عثمان بزدار بھی کافی ہاتھ پاوں مار رہے ہیں ترین گروپ کے بندے توڑنے کے بھی دعوے کیا جا رہا ہیں اس حوالے سے پوری خبر یہ ہے کہ جن کے حوالے سے دعوی کیا جا رہا ہے ۔ دراصل یہ لوگ علیم خان سے رابطے میں تھے ۔ ترین گروپ کے چھبیس یا ستائیس لوگ پورے ہیں ۔ دوسرا جو ایک اور دعوی حکومت نے کیا کہ چارسے پانچ ایم پی ایز ہم نے ن لیگ کے بھی توڑ لیے اور عمران خان سے ان کی ملاقات بھی کروادی ہے ۔ یہ تو چار لوگ وہ ہی ہیں جو کافی عرصے سے ن لیگ سے منحرف ہیں اور عثمان بزدار کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ ۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی کرسی کی بات کی جائے تو ق لیگ کی طرح ایم کیو ایم بھی کنفیوز دیکھائی دیتی ہے ۔ ایک جانب وہ حکومتی اتحادی ہیں مگر اگلے الیکشن پر بھی ان کی نظر ہے اس لیے خبریں یہ ہیں کہ ایم کیو ایم والے پیپلز پارٹی سے یقین دہانیاں مانگ رہے ہیں۔۔ کہا جارہا ہے کہ آصف زرداری نے چوہدریوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کرے گی اور جتنا ممکن ہو سکا اتنے مطالبات پورے کرے گی۔ پھر جی ڈی آے اور باپ والوں کو بھی زرداری صاحب نے قابو کیا ہوا ہے ۔۔ شاید اسی لیے عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے بعد آصف زرداری کو اپنا ٹارگٹ نمبرون قراردیا ہوا ہے۔

۔ میں اس سلسلے میں یاد کروادوں کہ آصف زرداری نےانتخابی طاقت کےباوجودبلوچستان میں مسلم لیگ ن کےخلاف ہواکا رخ موڑا تھا ۔ پھر موجودہ دور میں جیسے سینٹ میں یوسف رضاگیلانی کو منتخب کروایا۔ وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔۔ یوں عمران خان اب سمجھتےہیں کہ تحریک عدم اعتمادکے ماسٹر مائنڈ آصف زرداری ہیں اوروہ یہ بھی سمجھتےہیں کہ زرداری ٹیبل پرچیزوں کوبدل سکتے ہیں۔۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چودھری وزیراعظم سے زیادہ آصف زرداری پر اعتماد کرتے ہیں۔ ۔ اگرچہ ترین گروپ، ق لیگ اور ایم کیو ایم والے اپوزیشن کی طرف مائل نظر آ رہے ہیں اور حکمران جماعت کے مخالفین سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے کہ کس کا ساتھ دینا ہے۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسی طاقت ہے جو پی ٹی آئی حکومت کا شیرازہ بکھیرتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ایک منظم طریقے سے اپنے اپنے وقت پر ہر عمل ہوتا جا رہا ہے۔۔ مثالیں آپکو دے دیتا ہوں فیصلہ آپ خود کر لیں ۔ یہ بات کھل کرسامنے آچکی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی سپورٹ کے عوض ن لیگ نے حکومت سے منحرف اراکین کو اگلے عام انتخابات میں ٹکٹ کی یقین دہانی کروادی ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ضرور ہوگا ۔ مگر کیا آپ نے سوچا کہ یہاں بھی ن لیگ کی صفوں میں کوئی کھلبلی نہیں مچی، کسی نے ناراض ہو کر کسی پریس کانفرنس کا اہتمام نہیں کیا اور پارٹی میں کوئی فارورڈ گروپ سامنے نہیں آیا ۔ ۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی بھی بھرپور طریقے سے سرگرم ہے اور حکومت کی جانب سے اٹھارہ سے بیس کروڑ روپے فی حمایت لینے کا الزام حکومت اس کی قیادت پر لگارہی ہے۔ تاہم حکومت اس الزام پر کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہے اور عوام مہنگائی اور بیڈ گورننس سے اس قدر تنگ ہیں کہ حکومت کے اس الزام کا کوئی اثر نہیں لیا ہے اور میڈیا کاموڈ بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ ۔ اپوزیشن کی تیسری بڑی شخصیت مولانا فضل الرحمٰن کا ٹکٹ چلا ہے نہ پیسہ، البتہ تیل میں ڈبوئی ہوئی لاٹھیوں کے بیان نے کام کردکھایا ہے۔ جبکہ عملی مظاہرہ اس کا ہم گزشتہ روز دیکھ چکے ہیں ۔ یوں متحدہ اپوزیشن کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے پی ٹی آئی کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔

۔ دوسری جانب عمران خان اس وقت agitationکی سیاست جانب بڑھتے دیکھائی دے رہےہیں ۔ کیونکہ حکومت نے ڈی چوک پر تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ شہباز گل کا کہنا ہے کہ خان کسی وقت بھی آپ کے سامنے ایک ایسا سچ لائے گا کہ ان ضمیر فروشوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، پوری قوم انہیں جوتے مارے گی۔۔ اس حوالے سے پورا سچ یہ ہے کہ کپتان نے آج سے پہلے جتنے بھی میچ کھیلے ہیں اس میں اس کو ایمپائر کی مدد حاصل رہی ہے یہ پہلی بار ہے کہ ان کو اپنے زور بازو پر یہ میچ کھیلنا پڑ رہا ہے ۔ اوپر سے یہ میچ بھی ٹیسٹ میچ ہے۔ پھر گروانڈ میں موجود تماشائی یعنی عوام بھی اس بار ٹیم سے بدظن دیکھائی دیتے ہیں ۔ جبکہ مخالف کمیپ سے سیاست کے بڑے ہی منجھے ہوئے کھلاڑی میدان میں موجود ہیں جو کپتان کی تیزی سے ان سوئنگ اور آوٹ سوئنگ ہوتی گیندوں کو بڑی مہارت سے باونڈری لائن کے باہر پہنچا رہے ہیں ۔ یوں میچ اس وقت ایک دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔

نوید شیخ
نوید شیخhttps://www.baaghitv.com/
نوید شیخ گزشتہ پندرہ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے ٹاپ چینلز میں کام کرچکے ہیں۔ کامران شاہد، انیق ناجی، نادیہ خان کے پروگرامز پروڈیوس کرتے رہے ہیں ۔ آجکل کھرا سچ ود مبشر لقمان کے سینئر پروڈویوسر کے طور پر ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں ۔