سرینگر۔ 15 اگست (اے پی پی) کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منارہے ہیں جس کا مقصد عالمی برادری کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ بھارت کے جموں وکشمیر پر غیر قانونی قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطا بق یوم سیاہ منانے کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بھارت کے یکطرفہ اقدام کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔ قابض انتظامیہ نے آج مسلسل گیارہویں دن بھی لوگوں کو بھارت مخالف مظاہروں سے روکنے کے لئے پوری وادی کشمیرمیں سخت کرفیو اوردیگر پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔قابض انتظامیہ نے مقبوضہ وادی کشمیرخاص طور پر سرینگر میں جگہ جگہ بڑی تعداد میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کر کے اسے مکمل طور پر ایک فوجی چھاؤنی اور حراستی مرکز میں تبدیل کر دیا۔ سرینگر میں ہزاروں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لئے سنسان گلیوں اور سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔

انتظامیہ نے چار اگست کو نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے بھارتی آئین کی دفعہ 370کی منسوخی کے ذریعے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے ایک دن قبل سے وادی کشمیرمیں سخت کرفیو اور پابندیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ قابض انتظامیہ نے آج مسلسل گیارہویں دن بھی مسلسل ذرائع مواصلات پر پابندیاں جاری رکھی اورٹیلی ویژن،ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل اور ذرائع ابلاغ پر قدغن جاری رکھی۔ انٹرنیٹ اور فون سروسز کی معطلی کے باعث مقبوضہ علاقے کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔سخت کرفیو اور پابندیوں کے باعث مقامی اخبارات چار اگست کی رات سے اپنے آن لائن ایڈیشن بھی اپ ڈیٹ نہیں کر سکے ہیں اور نہ ہی اخبارت شائع ہو پا رہے۔ادھر سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت تقریباً تمام حریت رہنما گھروں اور جیلوں میں نظر بند ہیں۔ بھارت نواز رہنماؤں فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، انجینئر رشید، سجاد لون اورشاہ فیصل سمیت 900 سے زائد سیاسی رہنما زیر حراست ہیں۔سخت پابندیوں کی وجہ سے مقبوضہ علاقے میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے کیونکہ لوگوں کو بچوں کی خوراک،دودھ اور جان بچانے والی ادویات سمیت اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

Shares: