پچھلی چند دہائیوں سے جنسی جرائم کے ارتکاب میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جنسی جرائم جیسے خطرناک فعل میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے ۔جن کے براہ راست اثرات خواتین اور بچوں پر ہیں ۔معاشرے کے ہر فرد بالخصوص خواتین اور بچوں میں غیر یقینی کی سی صورتحال ہے کہ کسی بھی وقت اُنھیں جنسی حملے کا شکار بنا یا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کے ذہن میں ایک خوف طاری رہتا ہے ۔اور اُسے معمول کا جرم ماننے لگے ہیں حلانکہ یہ ایک خطرناک عمل ہے ۔جسکی زندہ مثال رواں ماہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں چار سالہ مریم کا قتل ہے ۔پولیس کو معصو م بچی کی گردن کٹی لاش ملی اور وقوعہ کے بعد ہر کوئی یہ سمجھ رہا تھا کہ کسی جنسی درندے نے یہ حرکت کی ہوگی مگر بعدمیں پولیس کے تفتیش کی بدولت معلوم ہوا کہ قتل کا محرک کچھ اور تھا اور چار سالہ معصوم مریم کا قاتل بچی کا باپ ہی نکلا ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ایسے واقعات کو عوام فوراً کسی جنسی حملہ یا جنسی تشدد کے فعل کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں کیوں کہ عوام کے ذہن میں یہ ایک تصور رچ بس چکی ہے کہ ایسے واقعات کو جنسی تشدد ،جنسی حملہ کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں ۔

جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو "جانور ” وحشی درندہ "جیسے مقبول عرف سے پکارا جاتا ہے حالانکہ معاملہ کی نوعیت اِس کہیں بڑھ کر ہے لیکن اِس قسم کے واقعات کے تناسب میں بڑھتی ہوئی تعداد اور آئے روز میڈیا میں چلنے والی خبروں کی وجہ سے ہمارے جیسے قدامت پسند معاشرے میں یہ تا ثر دیا جاتا ہے کہ دیگر جرائم کی طرح یہ بھی ایک عام جرم ہے ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستا ن میں سال 2018ء میں 4326سال 2019ء میں 4377سال 2020ء میں 3887اور سال 2021ء میں 1866زنا بالجبر کے مقدمات رجسٹرد ہوئے ۔یہ اعدادو شمار نیشنل پولیس بیورو کی جانب سے مرتب کئے گئے اور وزارت انسانی حقوق نے پارلیمنٹ آف پاکستان میں پیش کیے۔ یعنی گزشتہ چار سالوں میں کل ملا کر 14456ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں یہ اُن تمام واقعات کا کل ملا کر نصف حصہ بھی نہیں کیونکہ پاکستان میں اِس قسم کے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں جن کی بنیادی وجوہات میں ایک خاتون کی مستقبل ، عزت ،غیرت وغیرہ وغیرہ جیسے سوچ ہیں ۔رپورٹ کے مطابق کام کی جگہوں پر ہراسگی کے رجسٹر  شدہ واقعات کی تعداد 16153ہے حلانکہ یہ تعداد اُ ن تمام واقعات کا ایک چوتھا ئی حصہ بھی نہیں جو گزشتہ چار سال کے دوران رونما ہو چکے ہیں ۔ بیشتر خواتین اِس قسم کے واقعات معاشرے  میں خاندان کی عزت کی پامالی، معاشی مسائل ، پولیس کا منفی رویہ کی وجہ سے بیان کرنے یا رجسٹر کرنے سے کتراتے ہیں ۔
کام کی جگہ پر ہراسگی کے روک تھام کے لیے سال 2010ء میں قانون متعارف کرایا گیا اور سال 2020ء میں اسے مزید فعال بنانے کی خاطر ترامیم کی گئی ۔مگر تا حال اس سے کسی قسم کی کامیابی نہ مل سکی جس کی سب سے بڑی وجہ ایسے قوانین کو عام لوگوں سے دور رکھنا ہے۔ قانونی اصطلاحات اتنی پیچیدہ رکھی گئی ہے۔کہ عام خواتین کی سمجھ سے بالاتر ہیں ۔دوسری بڑی وجہ اوپر بیان کی گئی ہے کہ معاشرے میں بدنامی کاڈر ،پولیس کا خواتین کے ساتھ منفی برتاؤ وغیرہ جیسی وجوہات کی وجہ سے اپنے مسائل کو بیان کرنے سےکتراتی ہیں۔

ایک جاننے والی خاتون جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیان کیا کہ انہیں اپنے دفتر میں آئے روز ہراسانی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زبانی فقرہ بازی ،اشارہ بازی سے لےکر بسا اوقات جسمانی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش ہوتی تھی۔مذکورہ خاتون کا مؤقف تھا کہ اگر یہ واقعہ خاندان کے کسی فرد کو بتاؤں گی تو یا تو وہ کام کرنے سے منع کریں گے یا دفتر کے مرد اہلکاروں سے لڑائی  جھگڑے کی نوبت آسکتی تھی۔ بدیں وجہ اپنے آپ کو یہ مسئلہ بیان کرنے سے روکی مگر جب معاملہ حد سے تجاوز کر گیا تو پولیس میں شکایت درج کرائی جو بعد میں علاقہ عمائدین کی کوششوں سے صلح کے ذریعے مسئلہ وقتی طور پر ختم ہوا مگر اس کے بعد لوگوں کی طرف سے اپنی طرف اٹھنے والی تمام نظروں کو مشکوک سمجھتی ہوں۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔خیرپختونخوا ہی کا ایک اور واقعہ ہے۔ضلع دیر لوئر میں چند ماہ قبل ایک خاتون نے سول جج کے خلاف جنسی ہراسانی کی درخواست مقامی پولیس کو دیکر جس پر باقاعدہ سول جج کے خلاف مقدمہ درج ہوا مگر بعد میں مدعیہ اپنی ابتدائی بیان سے مکر کر بیان کیا کہ یہ تو مقامی پولیس نے مجھے ورغلا پھسلا کر جج صاحب کے خؒاف شکایت درج کرانے کا کہا۔یہاں غلطی جس کی بھی ہومگر جھوٹ پر مبنی ایسے الزامات کسی کی بھی پیشہ ورانہ زندگی ،معاشی و معاشرتی زندگی برباد کرسکتی ہے۔

زنا بالجبر ،جنسی ہراسانی کے علاوہ ایک اور اخلاقی برائی جو ہمارے معاشرے میں بری طرح سرائیت کر چکی ہے وہ Paedophilia ہے۔یہ ایک ذہنی بیماری ہے جس میں مبتلا ہونے کے کئی وجوہات ہے،جن میں سرفہرست وجہ یہ ہے کہ اس میں مبتلا افراد بچپن میں کسی قسم کے استحصال (خواہ والدین کی توجہ ،اساتذہ کی طرف سے جسمانی تشدد،معاشی احساسی کمتری وغیرہ)کا شکار ہوا ہوتاہے۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد کئی مہینوں سے جنسی Fantasy میں رہتے ہیں ۔مثال کے طور پر  ایسا شخص سراب خیالی میں کسی اداکارہ ،جاننے والی عورت کے ساتھ جنسی عمل کر رہا ہوتا ہے مگر بعد میں وہ پورا نہ ہونے کی صورت میں کسی کمزور فرد بالخصوص بچہ/بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

اس ہیجان میں مبتلا شخص کے لیے کام کرنے کی جگہوں پر کام کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات ڈپریشن میں مبتلا رہتا ہے اور تمام مشکلات کا سامنا کرنے کی بناء پر وہ تصور کر لیتا ہے کہ تمام مسائل کا جڑ یہی ایک عمل ہے اور آسانی سے نشانہ بننے والے بچے /بچیوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔عام طور پر قریبی رشتہ دار ، ہمسائے  ایسے شخص کی درندگی کا آسان ہدف بن سکتے ہیں۔اور بعض اوقات بچے ڈر کی وجہ سے خاموش رہ جاتے ہیں جو بعد میں معمول بن جاتا ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر بچہ/ بچی اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جنسی ہراسانی ، تشدد کا شکار ہوا ہوتا ہے مگر بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ کم کمیونیکیشن  اور خوف کی وجہ سے ایسے واقعات وہ بیان نہیں کر سکتے ۔خواتین اور بچوں کے علاوہ مرد بھی ایسے ہراسگی ،جنسی حملوں کا نشانہ بنتے ہیں جن کی عمر 18 سے 30 سال کے درمیان ہو مگر اُسکی تعداد کافی کم ہے۔ یہ عمل عمر، رنگت ،مذہب اور معاشرتی رُتبے کو مد نظر رکھ کر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کے موافق حالات  دیکھے جاتے ہیں۔چلتی شاہراہوں پر اس قسم کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ حال ہی میں رونما ہونے اولے موٹروے کیس اس نوعیت کا پہلا وقوعہ تھا مگر اس کے بعد ابھی ابھی ایک خاتون کی چلتی ریل گاڑی میں اجتماعی زیادتی  کا نشانہ بنایا گیا ۔ایسے واقعات کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔

جنسی درندگی کے مجرمان کو عام طور پر "اکیلے پن سے شکار ، دماغی امراض میں مبتلا ،پاگل ،دیوانہ”وغیرہ جیسے ناموں سے منسوب کیا جاتاہے۔حالانکہ یہ بات کسی  حد تک درست ہے مگر رجسٹرشدہ شکایات میں نامزد ملزمان کی ہسٹری اُٹھا کر دیکھی جائے تو تقریباً  تمام افراد ذہنی  طور پر درست ہوتے ہیں اور قبل ازیں  بھی کسی بڑے جرم میں مبتلا رہ چکے ہوتے ہیں  ۔ایسے واقعات میں آئے روز اضافے کی وجوہات  میں سب سے بڑی وجہ جسٹس سسٹم کی ناکامی ، قوانین پر من وعن عمل درآمد نہ کرنا ۔سزاؤں کی کمی ،جیلوں میں مجرمان کی نفسیاتی علاج کی عدم فراہمی جیسے اسباب ہیں۔تقریباً 2 سال قبل خیبر پختونخوا میں بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کے ملزم کو ایک ماہ کے اندر عدالت سے ضمانت مل گئی۔جو ہمارے  تفتیش کے معیار اور جسٹس سسٹم پر سوالیہ نشان ہے۔ایسے واقعات کے روک تھام کے لیے عوام با لخصوص خواتین اور بچوں میں سرکاری  سطح پر منظم آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ سکول ،کالجز ،یونیورسٹیز میں سیمینار منعقد کراکر  خواتین ،بچوں کو یہ باور کرایا جائے  اگر کسی کے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آئے تو بلا جھجک پولیس ،خاندان کے کسی بڑے کو شکایات بیان کر کے کیوں کہ ایسے واقعات کو چھپانا مستقبل میں اُن کی ناکامی کی موجب بن سکتی ہے۔

پولیس کو تفتیش بہتر بنانے ،عوام  با لحصوص خواتین کے ساتھ مناسب رویہ اپنانے کے لیے جدید خطوط پر استوار  ورکشاپس سرکاری سر پرستی میں منعقد کرائے جائیں ۔حال ہی میں پاس ہونے والے اینٹی ریپ(انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل ) ایکٹ 2021 کو پوری طرح نافذ العمل کرنے اور خواتین کے خفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھانا  ناگزیرہے ۔خواتین کو با اختیار بنانے کے لئےفرسودہ سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔قوانین کو عام عوام تک پہنچانے ، عام فہم زبان میں شائع کرنے کے عملی اقدامات اُٹھانا  ضروری ہے ۔والدین اور بچوں کے درمیان دوستا نہ تعلقات ہو جو بلا جھجک والدین کو اپنے مسائل بیان کر سکے ۔بچوں پر نگرانی ، غیر افراد پر اعتماد کو کسی حد تک کم کرکے والدین اپنے بچوں کو محفوظ کر سکتے ہیں ۔ایسے مقدمات میں بہتر تفتیش کو یقینی بنانا ۔عدالتوں کی طرف سے سخت سے سخت سزائیں اور جیلوں میں مجرمان کی نفسیاتی تربیت کرکے ہی ایسے افعال ، جرائم کا خا تمہ ممکن ہے ۔

Shares: