ڈبلیو ایچ او نے ’منکی پاکس‘ کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ’منکی پاکس‘ کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
باغی ٹی وی : خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق متعدد ماہرین اور ممالک کی جانب سے’منکی پاکس‘ کے نام کو توہین آمیز اور نسل پرستانہ قرار دیئےجانے کے بعد عالمی ادارے نے اس کا نام تبدیل کرنے کے لیے دنیا بھر کے افراد سے مدد مانگ لی۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ادارے کو ایسے ناموں کی تجاویز دی جائیں، جس سے کسی علاقے، جنس، قوم، خطے، مذہب، نسل، گروہ یا ثقافت پر منفی اثرات نہ پڑیں۔
ہائپرٹینشن کورونا کے خطرات بڑھا دیتا ہے، تحقیق
ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او نے واضح کیا ہے کہ اس نے منکی پاکس کے دونوں پرانی قسموں کے وائرسز کے نام تبدیل کرکے اس میں رومن ہندسے بھی شامل کرلیے ہیں، تاکہ اس سے وائرسز کو بھی کسی ثقافت، خطے یا علاقے سے نہ جوڑا جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب سے وسطی افریقہ میں پائے جانے والے ’کانگو بیسن‘ وائرس کو ’کلیڈ I‘ جب کہ مغربی افریقی خطے میں پائے جانے والے وائرس کو ’کلیڈ II‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اسی طرح بعد میں یورپ سمیت دیگر خطوں میں میں پائے گئے ’منکی پاکس‘ کے وائرسز کو ’کلیڈ I اے‘ اور ’کلیڈ II بی‘ کا نام دیا گیا ہے جبکہ جلد ہی عالمی ادارہ بیماری کا نام بھی تبدیل کردے گا ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ یہ فیصلہ اس ہفتے سائنسدانوں کی میٹنگ کے بعد کیا گیا ہے-
کورونا وائرس چین سے نہیں بلکہ امریکی لیبارٹری سے لیک ہوا،امریکی پروفیسر کا انکشاف
عالمی ادارے کی جانب سے منکی پاکس کے مختلف قسموں کو الگ الگ نام دیئے جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بیماری کی بھی کورونا کی طرح متعدد قسمیں ہیں۔
اس بیماری پر ’منکی پاکس‘ نام 1958 میں اس وقت رکھا گیا تھا جب اسے پہلی بار یورپی ملک ڈنمارک میں پایا گیا تھا، جس کے بعد یہ بیماری 1970 کے بعد بڑے پیمانے پر افریقہ میں پائے گئی۔
مئی 2022 سے اب تک منکی پاکس کے افریقہ کے باہر 31 ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور یہ بیماری دنیا کے 80 کے قریب ممالک تک پہنچ چکی ہے۔