ہر سال یکم اکتوبر چین کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ا س دن کو چین میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔یکم اکتوبر سن 1949 کو عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان ہوا تھا.

آج چین کے اس قومی دن کے موقع پر ہم آپ کو پاک چین دوستی اورتعلقات کی تاریخ سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں ڈاکٹر رشید احمد کے مطابق؛ 1950 کی دہائی میں جب پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر باقاعدہ تعلقات قائم ہوئے، تو اس وقت کی دُنیا ، موجودہ دُنیا سے بالکل مختلف تھی سابقہ سوویت یونین (موجودہ جمہوریہ روس)اور ریاستہائے متحدہ امریکہ عالمی سیاست کے دو محور تھے۔ چین کا اگرچہ بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا تھا اور اس وجہ سے اُسے1945 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رُکن بھی بنایاگیا مگر طویل عرصے تک بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کاشکار ہونے کی وجہ سے متعدد اندرونی مسائل مثلاً معاشی پسماندگی، بھوک، غربت اور بے روز گاری کا شکار تھا۔

تاہم نئی حکومت نے چین کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کو فوری اور اولین اہمیت دیتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے قیام اور استحکام کو ترجیح دی۔ جنوبی ایشیا کا خطہ چین کی کمیونسٹ حکومت کی خصوصی توجہ کا مرکز تھا۔ کیوں کہ اسی خطے کے پانچ ممالک یعنی بھارت، بھوٹان، نیپال، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی تھیں اور یورپی دور کے آغاز سے قبل اس خطے کے ساتھ چین کے تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم تھے۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ جسے اب شاہراہِ قراقرم کا نام دیاگیا ہے، صدیوں سے جنوبی ایشیا ، خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے ذریعے چین اور یورپ کے درمیان نہ صرف تجارتی سامان بلکہ ثقافتی اقدار،علم وہنر اور جدید خیالات کی ترسیل کا ذریعہ تھی۔ اس دور میں امریکہ نے نئے چین کو دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ پاکستان نے امریکہ کی اس چین دشمن پالیسی کی پروا نہ کرتے ہوئے چین کی نئی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرکے ہر بین الاقوامی فورم پر چین کی حمایت کی، پاکستان اُن ممالک میں شامل تھا جو اقوامِ متحدہ ، خصوصاً سلامتی کونسل میں چین کی نشست بحال کرنے کے حق میں تھا.

یاد رہے کہ چین نے بھی اُس وقت پاکستان کی خیر سگالی کا احترام کرتے ہوئے، پاکستان کے ساتھ دوستی اور قریبی تعلقات کے لئے ہاتھ بڑھایا۔1951 میں کشمیر کی وجہ سے جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہوئے اور بھارتی حکومت نے پاکستان کو کوئلے کی سپلائی اچانک بند کرکے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس مشکل موقع پر چین نے پاکستان کو کوئلہ فراہم کیا۔

یہ یاد رہے کہ اُس وقت پاکستان کی معیشت صنعت حتیٰ کہ بجلی پیدا کرنے کے لئے کوئلہ توانائی کا سب سے اہم ذریعہ تھا۔1950 کی دہائی میں پاکستان اور چین کے درمیان خیرسگالی اور باہمی مفاہمت پر مبنی تعلقات کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ سرد جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی اورکمیونسٹ مخالف دفاعی معاہدوں سیٹو(SEATO)اور سینٹو(CENTO) کا رُکن ہونے کے باوجود پاکستان، اقوامِ متحدہ میں چین کے جائز مقام کی بحالی کا حامی تھا اور جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس میں پاکستان چین کے حق میں ووٹ ڈالتا تھا۔

دوسری طرف ہندی، چینی بھائی بھائی کے نعروں کی موجودگی میں بھی چین نے کبھی کشمیرکے مسئلے پر بھارت کے مؤقف کی حمایت نہ کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دیگر بڑی طاقتوں کے برعکس چین، جنوبی ایشیا کو بھارت کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ بلکہ پاکستان اور جنوبی اشیا کے دیگر چھوٹے ممالک کے ساتھ تعلقات کو اُس نے بھارت کے ساتھ اپنی دوستی سے متاثر نہ ہونے دیا۔ 1955 میں ہنڈرنگ کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور چینی وزرائے اعظم کے درمیان خوشگوار تعلقات اور چینی وزیرِاعظم چواین لائی کی طرف سے پاکستان کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کے قیام کی خواہش اور اس کے بعد1955 میں چین کی نائب صدر سونگ چنگ کا دورہ پاکستان اور 1956 میں پاکستانی وزیرِاعظم (حسین شہید سہروردی) کا دورہ چین ، اس حقیقت کا غماض ہے کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے قدرتی دوست ہیں اور اس حقیقت کی بنیاد پر 1960 کی دہائی میں دونوں ملکوں میں دوستی کے مضبوط رشتوں کا قیام ناگزیر تھا۔ پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات کو جن دو معاہدوں نے ملکوں کی دوستی کے رشتوں کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا، وہ سرحدی معاہدہ(1963) اور اسی سال پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائنز کو اسلام آباد بیجنگ ایئر روٹ پر سروس شروع کرنے کی اجازت تھی۔

کہنے کو تو یہ دونوں دوطرفہ معاہدے تھے مگر ان کے دُور رس اور اہم بین الاقوامی مضمرات بھی تھے۔ عوامی جمہوریہ چین نے اپنی سرحدوں کو محفوظ اور مستحکم بنانے کے لئے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت کی۔ اُس کے نتیجے میں سابقہ سوویت یونین اور بھارت کے ساتھ سخت اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ بلکہ نوبت مسلح تصادم تک آپہنچی تھی۔ چین کو ان دونوں ملکوں کی طرف سے درپیش خطرات کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ پُرامن اور کامیاب مذاکرات کے ذریعے سرحدوں کا تعین جہاں چین کے لئے اطمینان کا باعث تھا، پاکستان کو بھی چین کے ساتھ براہِ راست رابطے کے ذریعے اہم اور محفوظ راستہ مل گیا۔ آگے چل کر یہی راستہ پاکستان چین اکنامک کاریڈور (سی پیک) کی بنیاد بنا۔

یکم اکتوبر 1949 کو چین پیپلز ریپبلک آف چائنا کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا،چین میں یہ دن روایتی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے پاکستان پہلا اسلامی ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا تھا،یہیں سے پاکستان اور چین کی دوستی کی ابتدا ہوئی جو مزید گہری ہوتی چلی گئی .

پاکستان اورچین نظریاتی طورپر بالکل ایک دوسرے کے مخالف لیکن دونوں میں دوستی مضبوط تر ہے ،پاک چین لازوال دوستی خطے میں امن و استحکام کی ضامن ہے پاکستان کے ہرمشکل وقت میں چین نے پاکستان کا سا تھ دیا ،چین پاکستان میں سرمایہ کاری رہا،سی پیک چین کا ایسا منصوبہ ہے جس سے پاکستان میں خوشحالی آئیگی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا

چین کا شمار دنیا کے مضبوط ترین ممالک میں ہوتا ہے دوسری طرف پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں لیکن اس کے باوجود پاکستان اور چین کے مابین تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ،کوئی بھی حکومت ہو ،ہر دور میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کومزید مستحکم کرنے کی ہی کوشش کی گئی

چین کے قومی دن کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ین نے کم عرصے میں معاشی طور پر ملک کو مضبوط کیا،پرامن اور مستحکم چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے،اصو ل پسندی اور بہتر ین نظم و ضبط پر چین کا بڑا حامی ہوں بہترین اصولوں سے چین نے اپنی قوم کو غربت سے نکالا

Shares: