عدم تشدد کا عالمی دن اور پرتشدد بھارت کا مکروہ چہرہ — اعجازالحق عثمانی

0
44

ہر سال 2اکتوبر کو ، اقوام متحدہ کی قرارداد (جس کی 143 رکن ممالک نے حمایت کی تھی) کے مطابق "عدم تشدد کا عالمی دن” یا "انٹرنیشنل ڈے آف نان وائیلنس” منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم عدم تشدد کو منانے کا مقصد، امن، برداشت اور عدم تشدد کا فروغ ہے ۔ تاکہ معاشرے میں امن و امان ، محبت اور بھائی چارے کا فروغ ہو۔

جنوری 2004 میں ایرانی نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی نے عدم تشدد کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی۔ جسے بھارت میں اس قدر پزیرائی ملی کہ بھارت نے "عالمی یوم عدم تشدد” منانے کی تجویز اقوام متحدہ کے سامنے پیش کردی۔

مگر بھارت جیسے جابر اور ظالم ملک کو دیکھ کر یہ بات کس قدر عجیب اور فریب لگتی ہے کہ اس ملک نے عالمی یوم عدم تشدد کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی تھی۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی یہ دن اپنے سیاسی رہنما گاندھی کے یوم پیدائش کے طور پر مناتے ہیں اور اسے بھارت میں "گاندھی جیانتی”کے نام سے منایا جاتا ہے۔ گاندھی نے کہا تھاکہ

"حقیقی خوشی وہی ہے۔ جو آپ بھائی چارے کے لیے سوچتے ، کہتے اور کرتے ہیں”۔

عدم تشدد کے علمبردار گاندھی کا ملک بھارت تو کبھی بھی تشدد ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آیا۔ بھارت میں مسلمانوں پر منظم تشدد اور قتل و غارت گری سے بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بھارت کی کشمیر میں جاری وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ دیکھ کر بھارت کی عدم تشدد کی قرارداد صرف فریب لگتی ہے۔ اپنے حق کےلیے آواز اٹھانے والے کشمیریوں پر بھارتی ظلم و تشدد اور سفاکی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جموں شہر کی قریبی نہر کشمیریوں کے خون سے سرخ نظر آتی ہے۔

گائے کے ساتھ نظر آنے والے مسلمانوں پر بھارتی مشتعل ہجوم کا تشدد ، کشمیر میں ظلم وبربریت ، مکر و فریب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ گاندھی کی قوم کی اقوام متحدہ میں عدم تشدد کی قرارداد صرف ایک فریب تھا۔ پوری دنیا میں بھارت کے قرارداد پیش کرنے کی وجہ سے "عدم تشدد کا عالمی دن” یا "انٹرنیشنل ڈے آف نان وائیلنس” تو منایا جاتا ہے ۔ مگر بھارتیوں نے خود آج تک اس پر عمل نہیں کیا۔

بطور معاشرہ ہم بھی ایک پرتشدد معاشرہ ہیں۔ گھروں میں ملازمین پر تشدد ، باس کے دفتر میں خواتین پر جنسی تشدد، سکولوں اور مدارس میں طلب علموں پر تشدد۔۔۔۔ یہی ہمارے معاشرے کی اصل تصویر ہے۔ لکھتے ہوئے باچا خان( خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان پختونوں کے ایک سیاسی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ انھوں نے برطانوی دور میں عدم تشدد کا پرچار کیا۔عدم تشدد کے بارے میں انکا ایک قول بہت مشہور ہے۔”ہماری جنگ عدم تشدد کی جنگ ہے اوراس راستے میں آنے والی تمام تکالیف اورمصائب ہمیں صبر سے جھیلنے ہوں گے”) کا ایک قول پردہ فکر سے بار بار ٹکرا رہا ہے.

” اگر آپ نے کسی کو ناپنا یا جاننا ہو کہ وہ کتنا ترقی یافتہ اور عدم تشدد کا علمبردار ہے تو دیکھیں کہ ان کا خواتین کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔”
اگر ہم اسی قول کے ترازو میں خود کو تولیں تو ہمارے معاشرے کا مجموعی وزن مائنس میں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم "انٹرنیشنل ڈے آف نان وائیلنس” سے کچھ سیکھتے بھی ہیں یا اگلے سال بھی یہ معاشرہ ایک پرتشدد معاشرہ ہی ہوگا۔

Leave a reply