” رویہ بدلنا ہوگا ” — عبدالحفیظ چنیوٹی

0
44

صالح اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے،والدین کی اولاد پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں جن میں سب سے اہم ان کی اچھی اور صالح تربیت کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے بہترین فرد بن سکیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے!اے ایمان والوں اپنے آپ کواور اپنے اہل و عیال کو (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں
(سورۃ التحریم آیت نمبر ۶)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں ہر کوئی نگراں ہے اور ہرکوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی:۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

اولاد والدین کے لئے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اپنی اولاد کے متعلق جواب دہ ہونگے۔اگر انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت اسلامی انداز سے کی ہوگی تووہ والدین کے لئے دنیا و آخرت میں باعث راحت ہوگی۔

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ’’جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں (۱)صدقہ جاریہ(۲)ایساعلم کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں(۳)

صالح اولاد جو ان کے لئے دعا کرتی رہے۔‘‘

یہ اولاد کی تربیت کا ثمرہ ہے جب ان کی صالح تربیت کی جائیگی تو وہ والدین کے لئے ان کی زندگی میں بھی فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی۔

والدین اس دنیا میں وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو ہر حال میں اپنی اولاد کا ساتھ دیتی ہیں۔ والدین کا مثبت رویہ اولاد کو بنا بھی سکتا ہے اور منفی رویہ تباہ بھی کر سکتا ہے۔

ہمارے ہاں اکثر والدین over possessive ہو جاتے ہیں جو بچے کی شخصيت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ مطلب بچوں کی حد سے ذیادہ فکر کرنا, ہر وقت ساتھ رکھنا, اور بچوں کا ہر فیصلہ خود کرنا اور یہ کہنا کہ "ہم بہتر سمجھتے ہیں بچے کبھی خود صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے”۔ یہ رویہ بچوں میں قوت فیصلہ, اچھائی و برائی کا فرق, اور سب سے بڑھ کر اپنی سوچ کو ختم کر دیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر والدین یہ سب اتنے پیار اور محبت سے کرتے ہیں کہ بچے سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ انھیں ہمیشہ والدین درست لگتے ہیں۔ اور اگر ذرا بھی یہ بچے بڑا ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو مان اور بھروسہ ان کے قدموں کی زنجیریں ثابت ہوتے ہیں۔ اور اگر اچانک کوئی مصیبت آجائے تو یہ بچے بلکل سنبھل نہیں پاتے اور نا ہی کوئی حکمت عملی طے کر سکتے ہیں۔

کچھ والدین اپنی اولاد کے ساتھ بہت سخت گیر ہوتے ہیں۔ وہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنے کے قائل ہوتے ہیں۔ وقت دینا, ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات ہے وہ ہمیشہ سخت رویہ اپنائے رکھتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ بچوں کو ڈرا کر ہی قابو کیا جا سکتا ہے نہیں تو یہ سر پر چڑھ جاتے ہیں۔ ایسے والدین اپنے بچوں کا اعتماد, کچھ کرنے کی لگن, اور شخصیت کو مسخ کر دیتے ہیں۔ بچوں کا ڈر انھیں صرف ” جی ٹھیک ہے” کہنے کا عادی بنا دیتا ہے۔ مطلب وہ اس احکامات ماننے والے بن جاتے ہیں۔ بوقت مصیبت یہ بچے بھی اکثر حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ کبھی اکثر وہ چھوڑ دیتے جو یہ چاہتے ہیں چاہے وہ کھلونے ہوں, کیریر ہو یا شادی کا فیصلہ یہ بچے وہی کرتے ہیں جو بڑے چاہتے ہیں۔ ان کا ڈر کبھی ان کی چھپی صلاحيتوں کو نکھرنے نہیں دیتا۔ یہ بچے اپنی کامیابی بھی اپنی والدین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

تیسرے نمبر پر وہ والدین آتے ہیں جو بہت لاپروہ ہوتے ہیں یعنی "Ignorant ” ۔ یہ والدین بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ان کا ہونا نا ہونا برابر ہوتا ہے۔ وہ نا تو کبھی پیار سے پیش آتے ہیں اور نا ہی غصے سے۔ یہ والدین بھی بچوں کو ڈیمج کر دیتے ہیں۔ کیونکہ بچوں کی شخصيت سازی میں والدین کا بہت قلیدی کردار ہوتا ہے۔ ایسے بچے اکثر نشے کے عادی بن جاتے ہیں۔ لاپرواہی اور غیر سنجیدگی ان کی نمایاں صفات بن جاتی ہیں۔ کچھ بچے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے بچپن میں ہی بڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی ضروریات زندگی اور تربیت اپنے سر لے کر وہ اپنی عمر سے بڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ ہوتے بہت کم ہیں۔

چوتھے نمبر وہ والدین آتے ہیں جو آئیڈیل ہوتے ہیں۔ یہ والدین اپنے بچوں سے پیار بھی کرتے ہیں اور حالات کے مطابق سختی بھی۔ یہ والدین اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرتے ہیں جو ان شخصيت کو نکھار دیتی ہے۔ یہ بچے با اعتماد, با ہمت, اور بہترین فیصلہ ساز ہوتے ہیں۔ یہ اپنے کیریر اور زندگی کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ یہ اپنی راہیں اور منزلوں کا تعین خود کرتے ہیں۔ یہ معاشرے کی تعمير و ترقی میں قلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ فیصلہ سازی, منصوبہ بندی, لیڈرشپ اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے میں یہ بچے بہتر ہوتے ہیں۔

Leave a reply