لاہور : اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو 10 کروڑ افراد چند گھنٹوں میں موت کے منہ میںچلیں جائیں گے ، اور اگر یہ جنگ طویل ہوتی ہے تو اس سے 2 ارب انسان کی زندگیاں ختم ہوسکتی ہیں ، اس کے بعد پھر زمین پر زخمی ، بیمار ، اپاہج اور بے بس انسان دکھ سہنے کے لیے باقی رہ جائیں گے ، ایٹمی جنگ کی سنگینیوں پر تحقیقات کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت اپنی ایٹمی طاقت کا آدھا حصہ بھی جنگ میں استعمال میں لے آتے ہیں توپہلے چند سکینڈوں میں 2 کروڑ افراد فوری طور پر موت کے منہ میں چلے جائین گے اور اوزون لئیر کا آدھا حصہ مکم تباہ ہو جائےگا۔ نیو کلیر بارشوں کو وجہ سے دنیا بھر کی ذراعت اور مون سون سیزن مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔
موجودہ صورت حال میں جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہتھیا لیا ہے اور بھارتی فوج دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے رہی ہے، اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اس صورتحال میں ہم امریکی یونیورسٹیز کے محقیقین کی طرف سے پیش کردہ وہ حقائق آپ کے سامنے لائین گے جو اس ممکنہ ایٹمی جنگ کے نتائج کو تفصیلا بیان کر رہے ہیں تاکہ ایٹمی جنگ کا راگ الاپنے والوں کے ہوش ٹھکانے لانے میں مدد مل سکے۔ بی جے پی کے ایم پی سوامی نےپچھلے سال 23 ستمبر کو کہا تھا کہ اگر پاکستان کے ایٹمی حملے میں ایک ارب بھارتی شہری مرتے ہیں تو جوابی حملے میں پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹایا بھی جا سکتا ہے۔ اگر یہ جنگ اس حد تک بڑھ جاتی ہے تو نقصان اندازے سے کہیں زیادہ ہو گا اور یہ نقصان صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہے گا۔ 21 ملین لوگ حملے کے بعد ایک ہفتے کے اندر موت کے منہ میں جائیں گے جو جنگ عظیم 2 کے دوران مرنے والوں کی تعداد کے دو گنا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کی صورت میں یہ ریسیرچ رتجر یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف کولریڈو بولڈر اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین نے پیش کی تھی۔ مرنے والوں کی تعداد 9 سال میں بھارت کی ٹوٹل اموات کے 2221 گنا زیادہ ہو گی۔ دنیا بھر کے 2 بلین لوگ بھوک اور قحط کا شکار بن سکتے ہیں جس کی وجہ ایٹمی دھماکے کی وجہ سے کلائمیٹ پر پڑنے والے اثرات ہوں گے۔ پاکستان کے وقت اس وقت 130 کے لگ بھگ ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں۔ جب کے انڈیا کے پاس ایٹمی وار ہیڈ کی تعداد 120 کے قریب ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان عالمی رہنماوں کو یہ بات بآور کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ بھارتی حکومت اس وقت ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہے، جن کے سر پر جنگی جنون سوار ہےاوروہ ایک ایسے بندرکی مانند ہے، جو آتے جاتے ہر ایک کو پتھرماررہا ہے، اوربھارتی حکومت کا خبط خطے کو کسی بھی وقت جنگ کےگہرے سمندرمیں دھکا دے سکتا ہےاوریہ جنگ فقط پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہے گی کیونکہ دونوں ہی جوہری طاقتیں ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بعید از قیاس نہیں جبکہ بھارتی وزیر دفاع پہلے ہی ان ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں تو ایسے میں یہ ایٹمی جنگ پاک بھارت سرحدوں سے نکل کر دنیا کے دو تہائی آبادی اور پوری فضاء کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ان ہی حالات کے تناظر میں پاکستانی حکومت بار بار عالمی دنیا کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرات سے آگاہ کررہی ہے لیکن لگتا ہے کہ ان ممالک اور ان کے ماہرین کو اب تک اس کے بھیانک نتائج کا اندازہ نہیں ہے جب ہی تو ایٹمی ماہرین پاک بھارت کے بجائے اس جنگ کی بات کررہے ہیں جس کا کوئی امکان فی الحال نہیں ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کے نتیجے میں دنیا 10؍ سال تک جوہری سردی کا شکار ہو جائے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، جوہری ہتھیار فائر کرنے (ڈیٹونیشن) کے نتیجے میں 147؍ ملین ٹن (150؍ ارب کلوگرام) دھواں پیدا ہوگا جو کرہ ہوائی (ایٹماسفیئر) میں پھیل جائے گا اور زمین پر چلنے والی ہوائیں اس دھویں کو پورے کرۂ ارض پر پھیلا دیں گی جس سے زمین کو جوہری موسم سرما (نیوکلیئر ونٹر) کا سامنا ہوگا۔
اس رپورٹ کو امریکہ روس جنگ کے بجائے پاکستان اور بحارت کی ممکنہ جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے کیونکہ اس کے نتائج بھی کم و بیش یہی ہوں گے کہ ایٹمی جنگ کا یہ دھواں زمین پر سورج کی روشنی کی رسائی میں رکاوٹ بنے گا جس سے دنیا کے ہر علاقے میں اوسطاً درجہ حرارت 9؍ ڈگری سینٹی گریڈ تک کم ہو جائے گا۔ ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ ڈیٹونیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دھواں چھٹنے میں سات سال لگیں گے اور روشنی کو معمول کی حد تک آنے کیلئے مزید تین سال کا عرصہ لگے گا۔
دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے نتیجے میں مون سون کا نظام تباہ ہو جائے گا اور سمندری درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے والا نظام خراب ہو جائے گا اور ایل نینو کی وجہ سے پیدا ہونے والے طوفان بڑھ جائیں گے،نیو جرسی میں روتگرز یونیورسٹی کے ایٹماسفیئرک سائنسدان جوشوا کوو نے اپنی تحقیق تھری ڈی ماڈلز استعمال کیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے اثرات کا انحصار موسم، ہتھیار کے ڈیزائن اور دھماکے کی جائے وقوع کی نوعیت پر ہوگا۔
جوہری بم کی 35؍ فیصد توانائی گرمی کی صورت میں خارج ہوگی، ایک میگا ٹن دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چمک سے دن میں 13 میل جبکہ رات میں 50 میل کے فاصلے تک لوگ اندھے ہو سکتے ہیں، دھماکے کے پانچ میل کے فاصلے کے اندر موجود لوگ تیسری ڈگری تک جھلس جائیں گے، قریب کی عمارتیں مکمل طور پر منہدم ہو جائیں گی اور دھماکے کی توانائی سے 178؍ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں گی جو 3.7؍ میل کے فاصلے کے اندر لوگوں کو اڑا کر رکھ دیں گی
ہمارے سامنے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران استعمال ہونے والے دو ایٹم بم آجاتے ہیں جو آج کے جدید اور طاقتور ترین ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں کمزور ترین ہتھیار کہلائے جاسکتے ہیں لیکن ان کمزور ترین ایٹم بموں کی تباہ کاریوں کا عالم یہ تھا کہ جاپان کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی ان ایٹم بموں کی آگ سے اس طرح جھلس گئے تھے کہ انھیں پہچاننا ممکن نہ رہا تھا اور لاکھوں انسان بھی آبادیوں اور پہاڑوں کی طرح جھلس کر کوئلہ بن گئے تھے۔
آج کا معصوم انسان ہیروشیما اور ناگاساکی کے المیے کی یاد میں ہر سال موم بتیاں تو جلاتا ہے لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ آج 1945ء سے سیکڑوں گنا زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں اگر خدانخواستہ یہ ہتھیار استعمال ہوجائیں تو پورا کرہ ارض ہی جل کر ایک ملبے میں بدل سکتا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی دنیا کے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے آئے دن کسی نہ کسی حوالے سے دن مناتے ہیں۔ان میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی تباہیوں کا دن بھی شامل ہے، ان دنوں میں ناگاساکی اور ہیروشیما کے مرحومین کی یاد کا دن بھی شامل ہے اس دن ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بموں سے جل کر مرنے والوں کی یاد منائی جاتی ہے اور بس!

1945ء میں یہ انسانیت کے قتل کام انسانوں نے ہی انجام دیا تھا اور آج ہیروشیما اور ناگاساکی سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار انسان ہی بنا رہا ہے کیا 1945ء کے المیے کی ہر سال یاد منانے اور آنسو بہانے سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری رک جائے گی؟ ہرگز نہیں، جب تک دنیا پر انسان اور انسانیت دشمن طاقتیں موجود ہیں جنھیں ہم سیاستدانوں کے نام سے پہچانتے ہیں،اس وقت تک دنیا کے سر پر ایٹمی تلوار لٹکتی رہے گی اور جب کوئی ٹرومن برسر اقتدار آئے گا تو پھر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو کون روک سکے گا؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کی خواہش رکھنے والوں کو پہلے یہ تصور کرلینا چاہیے کہ اس دور میں جب آج کے مقابلے میں کم طاقت والے ، کم خطر ناک اور ہلکے ایٹم بم نے جاپان میں لاکھوں انسانوں کو جلا کر راکھ کردیا ہے اور اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی تو پھر یہ ہزاروں گنا طاقت ور بموں سے انسانیت کا کیا بنے گا
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور پاکستان جوہری مواد تیار کرنے کی صلاحیتوں کو اتنا بڑھا رہے ہیں کہ اگلے دس سالوں میں ان کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں خاصا اضافہ ہو جائے گا۔
رپورٹ کے مطاباق پاکستان اور بھارت کی حکومتیں بھی اپنے کچھ میزائل ٹسٹوں کے بارے میں اعلان کرتی ہیں مگر اپنے ذخائر کے بارے میں زیادہ نہیں بتاتیں سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، گذشتہ سال میں دنیا بھر میں ایٹمی طاقتوں کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن چین، پاکستان اور بھارت مسلسل اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں۔
جنگ، ہتھیاروں کی روک تھام اور اسلحہ کے خاتمے پر کام کرنے والے ادارے ’سپری‘ کی جانب سے شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کے اندازے کے مطابق 2019 سے آغاز میں دنیا کی نو ایٹمی طاقتوں، امریکہ، روس، یو کے، فرانس، پاکستان، بھارت، چین، اسرائیل اور شمالی کوریا، کے پاس تقریباً 13865 جوہری ہتھیار تھے۔سپری کا کہنا تھا کہ یہ تعداد 2018 میں گنے گئے 14465 ہتھیاروں کے مقابلے میں 600 ہتھیار کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس سال گنے جانے والے 13 ہزار سے زائد جوہری ہتھیاروں میں سے ساڑھے 37 سو آپریشنل ہیں جبکہ دو ہزار ہائی آپریشنل الرٹ میں رکھے ہیں
اگر ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو کتنے لوگ مریں گے،کونسے بھارتی شہر پاکستان کے نشانے پر ہیں یہ بھی قابل غور پہلو ہے،چند برس قبل امریکہ میں ایٹمی ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ سے کون کون سے خطے کے علاقے تباہ ہوں گے ، امریکہ میں ہونے والی اس تحقیق میں یہ تخمینہ لگایا گیا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین ایٹمی جنگ ہوئی تو کس پیمانے پر تباہی ہو گی۔
اس تحقیق کے مطابق اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو 10کروڑ افراد تو پلک جھپکنے میں ہی ہلاک ہو جائیں گی۔پورے کرہ ارض کی آدھی اوزون کی تہہ تباہ ہو جائے گی۔ اس ایٹمی جنگ کے نتیجے میں پوری دنیا میں تابکاری کے جو اثرات پھیلیں گے اس سے مزید دو ارب انسان لقمہ اجل بن جائیں گے۔
بلیٹن آف د ااٹامک سائنٹسٹ کے مطابق پاکستان کے پاس 120سے 130 ایٹم بم ہیں جبکہ بھارت کے پاس 110 سے 120 جوہری ہتھیار ہیں۔اگرچہ دونوں ملکوں کے پاس ہی ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لیئے بیلسٹک اور کروز میزائل کی ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن پاکستان کے پاس شارٹ ،میڈیم اور لانگ رینج کے انتہائی مہلک میزائل موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق میڈیم رینج بیلسٹک میزائل حتف سے پاکستان بھارتی شہروں نیو دہلی،ممبئی،بنگلورواور چنائی کو نشانہ بنا سکتا ہے۔40 فیصد ایٹمی ہتھیار غوری سے فائر کیئے جا سکتے ہیں جس کی رینج 1300کلومیٹر تک ہے-اس کا مطلب یہ ہوا کہ دہلی ہی نہیں،جے پور احمد آباد،ممبئی،پونے،ناگ پور ،بھوپال،لکھنو ،لدھیانہ اور کلکتہ سمیت تمام بھارتی شہر پاکستان کے نشانے پر ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان شارٹ رینج غزنوی اور بابر کے ذریعے قریب ترین نشانوں پر بھی ایٹم بم داغ سکتا ہے۔بیلسٹک میزائلوں کے علاوہ پاکستان ایف سولہ جنگی طیاروں کے ذریعے بھی136یٹم بم گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بھارت کے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ لاہور،راولپنڈی،کراچی سمیت جس بھی شہر کو نشانہ بنائے گا،ایٹم بم کے تباہ کن اثرات اس کے اپنے ملک تک جائیں گے اور دشمن کو مارنے کے لیئے اسے اپنے کئی شہر بھی تباہ کرنا پڑیں گے۔قصہ مختصر یہ کہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو فتح کو جشن منانے والا کوئی نہیں ہو گا-
پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اس میں بھارت کو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کوئی نہیں روک سکتا ، یہ بھی یاد رہے کہ بھارت اندرون ملک میں بڑھتی ہوئی شورش اوربے چینی کوچھپانے کیلئے پاکستان کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرکے کشمیر سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کررہاہے،تاہم جس قدرانسانی حقوق کی پامالی ،لسانی ومذہبی تعصبات بھارت میں پائے جاتے ہیںشائدہی کسی اورملک میں اس کی نظیرملتی ہو۔
عمومی طورپربھارت میں صرف کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کوہی تحریک کے طورپردیکھاجاتاہے تاہم ایسانہیں ہے۔بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پنجاب،تامل ناڈو،بہار، چھتیس گڑھ،اڑیسہ،ہماچل پردیش،مہارا شٹرسمیت شمال مشرق میں آسام،ناگالینڈ،منی پوراور ترقی پورہ سمیت67علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں 17بڑی اور50 چھوٹی ہیں۔صرف آسام میں 34 علیحدگی پسندتنظیمیں کام کررہی ہیں۔261 اضلاع پرعلیحدگی پسندوں کامکمل کنٹرول ہے۔علیحدگی کی تحریکیں بھارتی حکومت اورریاست کیلئے بہت بڑاچیلنج ہے۔ان تحریکوں نے بھارت کے دیگرحصوں آندھراپردیش اورمغربی بنگال پربھی اثرات مرتب کئے ہیں۔
دوسری جانب بھارت ،لداخ اوراروناچل پردیش پرچین کے مقف سے بھی انتہائی پریشان ہے۔ علیحدگی کی ان تحریکوں نے بھارت کے ریاستی نظام کوبری طرح مفلوج کررکھاہے۔بھارتی فورسزنے علیحدگی پسندوں کی آوازکودبانے کیلئے ایک عرصے سے بدترین کالے قوانین کی آڑلے رکھی ہے۔ بھارت نے 11ستمبر1958کوافسپاکے نام سے ایک قانون متعارف کروایاتھاجس کامقصدفوج کو خصوصی اختیارات دے کرملک بھرمیں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کاراستہ روکناتھا۔اس قانون کے تحت ایک عام سپاہی کوبھی یہ اختیاردیاگیا کہ وہ کسی بھی شخص کوغدارقراردیکرجیل بھیج دے یاسرعام قتل بھی کردے۔اس اختیارکااستعمال کرتے ہوئے بھارتی فوج نے علیحدگی پسندوں کوچن چن کرنشانہ بنایا۔اس قانون کاسب سے پہلے اطلاق مقبوضہ کشمیر اور منی پورمیں کیاگیاجوبھارت کے نقطہ نظرسے بہت کامیاب رہا،تاہم اس کے باوجودبھی بھارت آزادی پسند وں کومکمل طورپردبانے میں ناکام رہاہے البتہ وقتی طور پر شمال مشرق بھارت سمیت دیگردیگرریاستوں میں بھارتی فورسزان تحریکوں کوکچلتی رہی ہیں لیکن اس حقیقت کوجھٹلایانہیں جاسکتاکہ علیحدگی پسندبھارت کیلئے ایک مستقل سردردبنے ہوئے ہیں جس کی تائیدوقتا فوقتابھارتی میڈیااورعالمی میڈیابھی کرتاہے۔
ھارت کے نقشے پرنظرڈالیں توشمال مشرق کی جانب سات ریاستوں پرمشتمل پٹی دکھائی دیتی ہے جسے تاریخی طورپر سیون سسٹریعنی(سات بہنیں)بھی کہاجاتاہے جن میں آسام،ناگالینڈ،منی پور،تری پورہ،میزورام،اروناچل پردیش اورمینالیہ شامل ہیں۔ان ریاستوں کوبنگلہ دیش اوربھوٹان نے ڈھانپ رکھاہے۔ یہ ریاستیں بھارتی ریاست مغربی بنگال کی ایک پٹی کے ذریعے بقیہ بھارت سے منسلک ہیں۔یہ علیحدگی پسندگروہوں کامرکزتسلیم کی جاتی ہیں جن میں آسام ،ناگالینڈ،منی پوراورتری پورہ سب سے زیادہ حساس ہیں۔صرف آسام میں 34علیحدگی پسندتنظیمیں سرگرم ہیں جن میں یونائیٹڈلبریشن فرنٹ ،نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ کے ماتاپورلبریشن آرگنایزیشن، برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا،مسلم ٹائیگرز،آدم سینا،حرکت المجاہدین ،حرلت الجہاد، گورکھاٹا ئیگرفورس، پیپلز یونائیٹڈلبریشن فرنٹ سرفہرست ہیں۔
دوسری جانب ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ،منی پوراورتری پورہ میں بھی جاری ہیں۔ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل سب سے زیادہ مثرہے جبکہ منی پورمیں پیپلزلبریشن آرمی،منی پورلبریشن ٹائیگرزفورس،نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ،کوکی نیشنل آرمی اورکوکی ڈیفنس آرمی جدوجہد میں مصروف ہیں۔اسی طرح تری پورہ آرمڈٹرائبل فورس،تری پورمکتی کمانڈوزاور بنگالی رجمنٹ جدوجہدکررہی ہیں جبکہ ریاست میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ علیحدگی کی تحریک آگے بڑھارہی ہے
بھارت کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے ذریعے رحیم یار خان اور سندھ کے سرحدی علاقوں سے فوج داخل کرنے کا سوچ رہا ہے اور بھارت کی یہ خواہش ہے کہ وہ پنوعاقل تک پہنچ کر سندھ کو باقی پاکستان سے الگ کرکے پاکستان کو تقسیم کردے ، یہ خفیہ منصوبہ بہت پرانا ہے ، بھارت نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پنوعاقل تک پہنچ کرسندھ کو پاکستان سے کاٹنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ،
1979میں سوویت یونین کے غاصبانہ قبضے کے بعد پاکستان کوکئی اطراف سے مسلسل دفاعی چلینجزکا سامنا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان چیلنجزکی نوعیت اور پاکستان کے مدمقابل قوتوں میں بعض تبدیلیاں تو آتی رہیں لیکن ایک خطرہ مسلسل موجود تھا اورہے اوریہ پاکستان کا مشرقی پڑوسی ملک بھارت ہے۔افغانستان پر سوویت یلغارکے دوران جب پاکستان بھی شدید دباؤمیں تھا بھارت نے ہر سطح پر پاکستان کی مخالفت جاری رکھی حتیٰ کہ 1986میں آپریشن براس ٹیکس(BRASS TACKS) کے نام پر راجھستان میں پاکستانی سرحد پر انڈین آرمی اور پاکستان کے قریب سمندرمیں بھارتی نیوی کو جنگی پوزیشن پر تعینات کردیاگیا۔ افغانستان کے خلاف جب امریکا برسرپیکار تھا تو2002 میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کی سرحدوں پر مشرقی پنجاب میں پانچ لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کو جنگی پوزیشن پر تعینات کیا۔
بھارتی فوج کی مغربی کمانڈ کے اُس وقت کے کمانڈر ان چیف لیفٹننٹ جنرل پریم ناتھ ہون نے اپنی کتاب The Untold Truth میں لکھا ہے کہ یہ محض فوجی مشقیں نہیں تھیں، بلکہ ان کا مقصد پاکستان کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز کرنا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی اُس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی اور دفاعی اُمور کے منسٹر آف سٹیٹ ارون سنگھ نے ذاتی مفاد کیلئے تیار کی تھی جس کیلئے اُس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو قطعی طور پر لا علم رکھا گیا تھا۔
اپنی کتاب کے نویں باب میں تفصیل بتاتے ہوئے جنرل پریم ناتھ ہون لکھتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل سندر جی کا مقصد جنگ جیت کر فیلڈ مارشل کا عہدہ حاصل کرنا تھا جبکہ وزیر دفاع ارون سنگھ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حکمت عملی کے مطابق بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے بھارتی علاقے میں پاکستانی فوج کو چھوٹے پیمانے پر کارروائی پر اُکسا کر مکمل جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ 15 جنوری 1987 کو آرمی ڈے کے موقع پر ہونے والے عشائیے کے دوران وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اُن سے پوچھا کہ اُن کی مغربی کمان میں صورت حال کیسی ہے۔ جواب میں اُنہوں نے کہا، ’’جناب وزیر اعظم! مغربی محاذ پر صورت حال بہت اچھی ہے اور بہت جلد جنگی محاذ سے آگے جاکر میں آپ کو ایک طشتری میں سندھ اور دوسری طشتری میں لاہور پیش کروں گا۔
ایک طرف پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بھارتی عزائم کو بھانپ چکی تھی اور اس کی اطلاع جنرل ضیاء الحق کودی گئی ،اسی دوران پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق مدعو کئے بغیر پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے بھارت پہنچ گئے،
جنرل ضیاء الحق واپسی پر ایئر پورٹ پر طیارے میں سوار ہونے کے لیے آرہے تھے تو راجیو گاندھی سے چلتے چلتے کہا کہ سنا ہے آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ، جنرل ضیاء الحق نے راجیو گاندھی سے کہا یاد رکھو اگر آپ نے حملہ کیا تو پھر ایٹم بم مار کر سارے بھارت کو تباہ کرکے رکھ دیںگے ،
تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھ لو کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ختم کروگے تو دنیا میں اور بھی مسلمان ملک ہیں جو اسلام کے نظریے کو لے کر آگے بڑھیں گے ، مگر بھارت دنیا میں ایک ہی ہندو ریاست ہے اور اگر یہ تباہ ہوگئی تو پھر تمہارا نام ونشان مٹ جائے گا
مورخین لکھتے ہیںکہ چند بھارتی افسران جو اس وقت راجیو کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ سخت سردی میں راجیو کے پسینے چھوٹ رہے تھے ، جس کے بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کے کا ارادہ ترک کردیا ، اور یوں پاکستان اور بھارت ایٹمی جنگ سے بچ گئے
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے بڑھنے اور خطے میں جنگی جنون کے بعد اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی جراءت کرتاہے تو پاکستان اپنے نصر میزائل سے بھارت کے تجارتی شہر ممبئی کو تباہ کردے گے اور پھر بھارت کبھی بھی دوبارہ اٹھ نہیں سکے گا اور مختلف حصوں میں تقسیم ہوجائے گا ،پھر ایک نہیں بلکہ کئی اور پاکستان بنیں گے بھارت میں،
کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن دوسری جنگ عظیم میں جنگی حکمت عملی اپنائی گئی تھی ، نازی فوج دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں اور روسی فوجوں پر بجلی کی طرح حملہ آور ہوتی تھی۔ جرمن اپنی آرٹیلری‘ ٹینکوں‘ انفنٹری اور جنگی طیاروں کو اچانک موبلائز کرتے تھے اور دشمن کے جاگنے سے پہلے پورا شہر اڑا دیتے تھے‘
بھارت کے عسکری ماہرین نے بلٹس کریگ اسٹرٹیجی پر کام کیا اور کولڈ اسٹارٹ کے نام سے ایک ڈاکٹرین تیار کیا‘ یہ ڈاکٹرین پاکستان پر 24 گھنٹے میں اچانک اور خوفناک حملے پر مشتمل ہے‘ یہ حملہ زمینی اور فضائی ہو گا اور بھارتی فوج پاکستانی فوج کے سنبھلنے‘ جوہری ہتھیار باہر نکالنے اور عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے رابطے سے پہلے آپریشن کر کے واپس چلی جائے گی تاکہ جب پاکستان ’’ری ایکٹ‘‘ کرے تو دنیا کو بھارت کی بجائے پاکستان جارح نظر آئے‘ بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین پر عمل کرتے ہوئے 2011ء کے مئی اور دسمبر میں پچاس ہزار فوجی پاکستانی سرحد پر جمع کیے اور وجے بھاؤ اور سدرشن شکتی کے ناموں سے باقاعدہ مشقیں کیں‘ بھارت اس ڈاکٹرین پر عمل کے لیے بین الاقوامی سطح پر باقاعدہ فضا ہموار کر رہا ہے
ماہرین کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اس میں پاکستان سے زیادہ بھارت کا نقصان ہوگا ، پھر یہ لڑائی ان دو ملکوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جب خطے کے دیگر ملک اس سے متاثر ہوں گے تو یہ جنگ پھیل جائے گی اور پھر دنیا کے دیگر ملک جب جنگ میں کودیںگے تو پھر انسانیت کا نشانات مشکل ہی سے بچیںگے ،