کالج کے دنوں کی بات ہے ایک دن کالج میں کوئی پروگرام تھا ہم ازلی سست تو تھے ہی سونے پر سہاگہ ہم کوئی اہم شخصیت بھی نہ تھے اس وجہ سے پروگرام کے منتظمین نے ہمارا انتظار کرنا مناسب نہ سمجھا اور ہمارے بغیر ہی پروگرام شروع کر دیا ۔

جب ہم کالج پہنچے تو کوئی لڑکا نعت شریف پڑھ رہا تھا اور اس کی آواز ہمیں دور سے سنائی دے رہی تھی اس لڑکے کی آواز اس قدر خوبصورت تھی کہ سیدھی دل میں اتر رہی تھی، بےساختہ دل کیا کہ اس کی صورت بھی دیکھی جائے ۔

چنانچہ دل کی آواز پر لبیک کہا اور فوراً پروگرام میں پہنچ گئے، نعت پڑھنے والے لڑکے کا رنگ انتہائی سفید تھا جس کی وجہ سے نورانیت کا تاثر پیدا ہو رہا تھا اور مزید تعارف دوستوں نے کرا دیا کہ یہ لڑکا پیرزادہ اور مستقبل کا گدی نشین بھی ہے جس کی وجہ سے عقیدت بھی محسوس ہونے لگ گئی ۔

تھوڑا عرصہ گزرا تو معلوم ہوا کہ صاحب موصوف چرس کو فقیری نشہ کہتے ہیں اس وجہ سے اکثر اپنے روحانی مدارج کی ترقی کے لئے چرس پیتے ہیں اور روحانی مدارج کا تو معلوم نہیں لیکن کالج کی تعلیم مکمل کرنے تک ہر قسم کے نشے سے ضرور آشنا ہو گئے تھے ۔

نشے کے استعمال کی وجہ سے وہ دیگر خبائث میں بھی مبتلا ہو گئے اور اگر پیری فقیری کی وراثت ان کا انتظار نہ کر رہی ہوتی تو موصوف یقیناً تعلیم سے فراغت کے بعد ایک سکہ بند بدمعاش ہوتے ۔

ہر شخص میں شخصی برائیاں اور خامیاں موجود ہوتیں ہیں اس لئے اس کے طرزِ عمل یا طرزِ زندگی پر ہمارا اعتراض نہیں بنتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر شیطان جنت میں آدم و ہوا علیہ السلام کو بہکانے سے باز نہیں آیا تو کیا یہ موصوف سجادہ نشینی کے بعد سابقہ زندگی سے تائب ہو کر مومن بن گئے ہوں گے اور لوگوں کی عزتیں ان سے محفوظ رہے گی۔

جو پیر اپنے بیٹے کو گمراہ ہونے سے نہیں بچا سکا وہ کیسے لوگوں کی بگڑی بنا سکتا ہے، ان جعلی پیروں کے پاس ایک ہی ہنر ہے لوگوں کی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی باندھ کر ان کو نسل در نسل غلام بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرنا ۔

جو لوگ حالات کی تنگدستی سے گھبرا کر رزق کی کشادگی کے لئے ان کے پاس جاتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے جنہوں نے خود چندے کے گلے رکھے ہوئے ہیں اور اپنی جھوٹی شان و شوکت کے لئے ہمارے نذرانوں کے محتاج ہیں وہ کیسے ہمارا رزق کشادہ کر سکتے ہیں ۔

جو عورتیں ان کو فرشتوں کی طرح معصوم سمجھ عملیات کروانے کے لئے ان کو تنہائی میں ملتی ہیں آخر میں سب کچھ گنوا کر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرشتے نہیں بلکہ دنیاوی ابلیس ہیں ۔

دنیا میں کامیابی کا ایک ہی راز ہے جتنا بڑا خواب اتنی زیادہ محنت، ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اپنی سو فیصد پرفارمنس دے کر پھر نتیجہ قدرت یا قسمت پر (اپنے عقیدے کے مطابق) چھوڑ دو۔

ان پیروں کی حقیقت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کرونا کہ دنوں میں کسی مائی کے لعل نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کرونا کے مریضوں کو میرے پاس لاؤ میں ان کا علاج کروں گا یا میں بغیر کسی قسم کے حفاظتی انتظامات کے کرونا کے مریضوں کے ساتھ وقت گزار کر اپنی روحانی طاقت یا مقام ثابت کروں گا کیونکہ ان دنوں لوگوں کے ذہنوں میں یہ راسخ تھا کہ کرونا لاعلاج ہے۔

ہمارے ساتھ ایک مستقبل کا گدی نشین پڑھتا تھا اس کی حرکتیں دیکھ کر ہماری آنکھوں سے عقیدت کی پٹی اتر گئی اور ہمیں سمجھ آ گئی کہ یہ رانگ نمبر ہیں تو براہ کرم آپ بھی اپنی آنکھوں سے عقیدت کی پٹی اتار دیں اور سمجھ لیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی ۔

Shares: