امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں ہرزہ سرائی کی ہے۔ اس حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ کے خلاف تحریک چلانے والے عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے امریکہ میں لابنگ فرم ہائیر کر رکھی ہے اور اس لابنگ فرم کا سربراہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں ملوث پے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں
تحریک انصاف کی جانب سے امریکہ میں لابنگ فرم ہائیر کرنے کے بعد امریکہ سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف بیان مبینہ طور پر اسی لابنگ فرم کا ہی کمال لگتا ہے کیونکہ تحریک انصاف نے دعوی کیا تھا کہ امریکہ میں لابنگ فرم بائیڈن ایڈمنسٹریشن سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے ہائیر کی گئی ہے۔ اگرچہ عمران خان امریکہ کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں لیکن ہر آنیوالے دن انکا دوہرہ چہرہ سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ مخالف نعرہ اور پھر بائیڈن ایڈمنسٹریشن کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے جب لابنگ فرم ہائیر کی گئی تو اسوقت بھی باغی ٹی وی نے سٹوری شائع کی تھی جس میں انکشاف کیا تھا کہ لابنگ فرم تحریک انصاف نے ہائیر کی ہے۔
لابنگ فرم ہائیر ہونے کے چند ماہ بعد ہی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں بارے امریکی صدر کے بیان کے بعد پاکستانی تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا ہے کہ امریکی صدر جو پاکستان سے اچھے تعلقات کے حامی ہیں سابق صدر آصف زرداری سے انکی بات چیت ہوتی رہتی ہے اور وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ میں امریکی صدر سے ملاقات ہوئی تھی اس سب کے باوجود آج کا امریکی صدر کا بیان عمران خان کی جماعت کی جانب سے ہائیر کی گئی لابنگ فرم کا شاخسانہ لگتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان جو ایک جلسے میں کہہ چکے ہیں کہ چوروں کی حکومت آنے سے بہتر ہے بم چلا دو۔ ایسے بیانات کے بعد کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کی خیر خواہی چاہیں گے؟ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنیوالے عمران خان کے دور میں جو کرپشن ہوئی اسکا ایک نیا ریکارڈ بنا ہے توشہ خانہ کی چند سو روہے کے تحفے تک گھر لے جانیوالے سے کس طرح توقع کی جا سکتی یے کہ وہ پاکستان کے قومی خزانے کا محافظ نکلے گا ۔فرح گوگی نے پنجاب میں جو کرپشن کا بازار گرم کیا وہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ شہزاد اکبر کے بریف کیس لینے کی ویڈیو سمیت خسرو بختیار غرض تحریک انصاف کابینہ کے ہر وزیر کا کوئی نہ کوئی سیکنڈل موجود ہے
واضح رہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے ٹیک اوور کے بعد امریکہ کے ساتھ عمران خان حکومت کے تعلقات میں سرد مہری آتی چلی گئی۔ اسی موقع پر پی ٹی آئی نے لابنگ فرمز کے ساتھ معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا اور ان میں سے ایک کمپنی رابرٹ لارنٹ گرینیئر کی تھی جو کہ ماضی میں پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے اسٹیشن چیف رہ چکے ہیں۔ یہ معاہدہ عمران خان کی جانب سے ان کے مشیر افتخار درانی نے کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت اس کمپنی کو 25 ہزار ڈالر فی ماہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی ادا کیے جانے تھے۔
دستاویزات کے مطابق: اس معاہدے کی مدت چھ ماہ تھی جو کہ مئی 2021 میں شروع ہوا اور دسمبر 2021 میں ختم ہوا۔ رابرٹ گرینیئر 2001 میں پاکستان میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف تھے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ تاہم بعد میں عراق میں بھی تعینات رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایک لابنگ فرم کھول لی تھی جس کے ساتھ اب عمران خان نے بھی معاہدہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ جس زمانے میں یہ موصوف پاکستان میں تعینات تھے، عمران خان بھی جنرل پرویز مشرف کے بڑے پرجوش حامی اور افغانستان جنگ پر ان کا دفاع کیا کرتے تھے۔ یہ جنرل مشرف کے خاصے قریب بھی تھے۔ عمران خان کو جنرل مشرف نے اپنا ایک کتا بھی بطور تحفہ دیا تھا۔ بعد ازاں جنرل مشرف سے تعلقات خراب ہوئے تو عمران خان نے افغانستان میں امریکی جنگ کی بھی بھرپور مخالفت شروع کر دی تھی.
امریکی قانون کے مطابق لابنگ کمپنیز کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام معاہدے پبلک کرے تاکہ حکومت اور عوام کو پتہ ہو کہ کون سی امریکی کمپنی کسی غیر ملکی کے لئے کام کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے صفحہ نمبر 6 پر افتخار درانی کے اسلام آباد کے گھر اور اس کمپنی کے امریکہ میں موجود دفتر کا پتہ موجود ہے۔
فینٹن کمپنی کے ساتھ بھی پی ٹی آئی تین معاہدے کر چکی ہے۔ پہلا معاہدہ جون 2021 میں کیا گیا جو کہ پاکستان کی طرف سے کونسل آن پاکستان ریلیشنز نے کیا۔ یہ ہیوسٹن میں واقع ایک کمپنی ہے جو محمد اشرف قاضی، عادل جمال اور اقبال عبداللہ نے بنائی تھی اور انہوں نے فینٹن کے ساتھ معاہدہ پاکستان کی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے کیا تھا۔ یہ معاہدہ بھی چھ ماہ کا تھا اور اس کی رقم بھی 25 ہزار ڈالر ماہانہ تھی.
اس کے بعد اسی کمپنی کے ساتھ مارچ 2022 میں ایک اور معاہدہ کیا گیا تھا تاہم یاد رہے کہ یہ وہی وقت تھا کہ جب عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آ چکی تھی اور وہ امریکی انتظامیہ کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ اس معاہدے پر 21 مارچ کی تاریخ درج ہے اور اس پر دستخط کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے وہی سابق سفیر اسد مجید ہیں جنہوں نے ڈانلڈ لو سے ہونے والی گفتگو کا احوال بذریعہ بدنامِ زمانہ مراسلہ پاکستان بھیجا تھا۔ یہاں پتہ بھی پاکستان ایمبیسی کا دیا گیا ہے۔
اس معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریکِ انصاف نے اب اسی کمپنی سے ایک اور معاہدہ کر لیا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پچھلے چھ ماہ اس کمپنی کو پیسے کس مد سے ادا کیے گئے اور اس دوران کی جانے والی لابنگ کس مقصد کے لئے ہو رہی تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لابنگ تحریک انصاف کی ہو رہی تھی اور پیسہ حکومتِ پاکستان کے خزانے سے ادا ہو رہا تھا؟ یہ بات تشویش طلب ہے۔ اس معاہدے پر دستخط یکم اگست کو ہوئے ہیں اور یہ 21 اگست کے بعد سے نافذ العمل ہے