ایک مرتبہ میں رات گئے راولپنڈی (فیض آباد) سے گوجرخان آ رہا تھا موسم سرد تھا اور سونے پر سہاگہ بارش بھی ہو رہی تھی میں جس بس میں سوار تھا اس میں دیگر مسافروں کے علاوہ ایک نائیکہ اور اس کے ہمراہی ایک لڑکی بھی سوار تھی جسے وہ اپنے کسی کرم فرما کے پاس چھوڑنے جا رہی تھی دوران سفر وہ عورت مسلسل دو اشخاص سے فون پر رابطے میں رہی اور بے دھڑک اونچی آواز میں ان سےفون پر باتیں کرتی رہی جس کی وجہ سے اس عورت کے پیشے اور سفر کا مقصد معلوم ہوا ۔
پہلا شخص جس سے وہ رابطے میں تھی اس نے ایئرپورٹ چوک (کرال چوک) میں اسے ملنا تھا عورت فون پر بضد تھی کہ بارش کی وجہ سے وہ ان کا انتظار نہیں کر سکتی کیونکہ بے بی کا میک اپ خراب ہو جائے گا اس لئے اگر وہ وقت سے وہاں پہنچ گئے تو ٹھیک ہے نہیں تو وہ گوجرخان دوسرے شخص کے پاس بے بی کو لے کر چلی جائے گی قصہ مختصر وہ شخص وقت پر نہ پہنچ سکا اور عورت گوجرخان چلی گئی بعد میں فون پر شکوے شکایتیں بھی ہوئے لیکن جیت نائیکہ کے موقف کی ہی ہوئی، بس کے مجھ سمیت تمام مسافروں نے اس تمام صورتحال پر کوئی ردعمل نہ دیا بس ان کی ٹیلیفونک گفتگو سن کر قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہے البتہ میں اس بات پر بہت عرصہ حیران رہا کہ وہ عورت کیسے اتنے لوگوں کے بیچ میں بیٹھ کر بے خوف ہو کر دیدہ دلیری سے ایسی باتیں کرتی رہی۔
پی ڈی ایم نے جب تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کیا تو اس بات پر میں بہت حیران تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کمی آئی ہے جبکہ اس وقت ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے مشکل معاشی فیصلے کرنے ہیں جن کی وجہ سے حکمران جماعت کی عوامی مقبولیت میں مزید کمی آنی ہے تو پی ڈی ایم کیوں تحریک انصاف کی حکومت کو تبدیل کر کے ان کی بلا (مشکلات) اپنے سر لینے لگی ہے تو اس کی تین وجوہات تھیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کو مجبوراً جلد بازی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنی پڑی تھی جبکہ دو دیگر ضمنی وجوہات اور تھیں اگر وہ بھی پوری ہو جاتیں تو لوگوں کی توجہ ان کے اصل مقصد سے ہٹ جاتی اور عام انتخابات میں پی ڈی ایم کو اس کا فائدہ ہوتا ۔
پی ڈی ایم کی حکومت تبدیلی کی پہلی اور اصل وجہ یہ تھی کہ ان کہ خلاف جتنے بھی عدالت میں کیس تھے ان کے فیصلے آنے والے تھے، پی پی پی اور مسلم لیگ کی قیادت کو یقین تھا کہ یہ فیصلے ان کے خلاف آئیں گے اور شاید وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل ہو جائیں یا انتخابات کے دوران جیل میں قید ہوں، دوسری وجہ الیکشن کمیشن میں ہونے والی اصلاحات اور بائیو میٹرک مشینوں کے بارے میں پی ڈی ایم کا خیال تھا کہ ان کی وجہ سے وہ الیکشن ہار جائیں گے چنانچہ انہوں نے حکومت میں آ کر الیکشن اصلاحات ختم کر دیں اور دوبارہ پرانے طریقے کے مطابق الیکشن کے انعقاد کا حکم دیا جبکہ تیسری وجہ انہوں نے نیب قوانین میں تبدیلی کر کے انہیں اپنے حق میں کیا جس کی وجہ سے انہیں عدالتوں سے ریلیف ملا۔
اس کے علاوہ پہلی ضمنی وجہ معیشت کی بحالی تھی پی ڈی ایم کی قیادت کی مجبوری تھی کہ حکومت تبدیلی کی اصل وجہ سے توجہ ہٹانے کے لئے وہ کوئی اور مقصد بتائیں تو انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی وجہ خراب معاشی صورتحال بتائی اور مشکل معاشی فیصلے کر کے ڈیفالٹ کے خطرے سے بچنے کو اپنا ہدف قرار دیا، اس وقت ان کے مدنظر یہ تھا کہ پہلے مفتاح اسماعیل سے مشکل معاشی فیصلے کرا کے الیکشن کے نزدیک اسحاق ڈار کو لا کر عوام کو کچھ معاشی ریلیف دے کر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر کے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جائے تو اسحاق ڈار نے وطن واپس آ کر وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا ہے شروع میں ڈالر کی قیمت کم بھی ہوئی تھی لیکن اس کمی کا فائدہ ابھی عوام تک نہیں پہنچا اور اشیائے خورد و نوش اسی طرح مہنگی ہیں شاید آنے والے دنوں میں ڈالر کی قیمت میں کمی کا اثر مہنگائی پر بھی پڑے اور اشیائے خورد و نوش سستی ہو جائیں ۔
تحریک عدم اعتماد کی دوسری ضمنی وجہ نومبر میں ہونے والی اہم تعیناتی کو قرار دیا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنی مرضی کے بندے کی تعیناتی کرنا چاہتی ہے تاکہ بہترین ورکنگ ریلشن شپ قائم ہو اور اس کا فائدہ عام انتخابات میں بھی ہو لیکن مسلم لیگی قیادت کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں مسئلہ ہمیشہ اپنی مرضی کے بندے سے ہی ہوا ہے اس کے علاوہ بظاہر لگتا نہیں کہ وہ تعیناتی کرنے میں خودمختار ہوں گے بلکہ امید ہے کہ وہ صرف ہدایات پر عمل کریں گے اور سب سے آخری بات کہ ادارے کا سربراہ کبھی بھی شخصیات کا پابند نہیں ہوتا بلکہ وہ ملکی مفاد میں ادارے میں مشاورت کر کے پالیسی بناتا اور اس پر عمل درآمد کرتا ہے اس وجہ سے تعیناتی چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت کرے لیکن یہ یقین رکھیں کہ ادارے صرف ملک و قوم کے وفادار ہیں ۔
اب تحریر کے شروع میں بیان کردہ واقعے اور تحریک عدم اعتماد میں مماثلت بیان کرتا ہوں جیسے گاڑی میں سفر کرتی نائیکہ کو معلوم تھا کہ کام میں شرم کس بات کی اس لئے اس نے شرم کو بالائے طاق رکھ کر ڈھٹائی سے اتنے لوگوں کے درمیان اپنا پیشہ، اپنے ساتھ موجود لڑکی سے اپنا رشتہ اور سفر کا مقصد ٹیلیفونک گفتگو میں بیان کر دیا یعنی عزت پر پیسے کو ترجیح دی ایسے ہی پی ڈی ایم کی قیادت نے بھی عزت کے بجائے پیسہ بچانے کا فیصلہ کیا اور اپنے خلاف چلنے والے کیس ختم کرنے کے لئے عوامی ردعمل کی پرواہ کئے بغیر ہر حد تک گئے اور ثابت کر دیا کہ نائیکہ اور ان کی نظر میں اہم عزت نہیں بلکہ پیسہ ہے، یعنی گندہ ہے پر کیا کریں دھندہ ہے.