تحریک آزادی ہند میں کلیدی اور قائدانہ کردار دینی قیادت کا تھا جو بدقسمتی سے پاکستان میں ایک خاص متعصب گروہ کے سبب پس منظر میں چلا گیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دراندازوں نے ہندستان پر قبضہ کیا تو مزاحمت کار افراد کی قیادت دینی پس منظر کے حاملین نے کی ، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان مزاحمت کاروں میں ہر مذہب و طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے ، یعنی مسلمان اور غیر مسلم ۔
اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے جلد بعد عسکری مزاحمت اپنے اختتام کو پہنچی اور ہندستان پر انگریزوں کا قبضہ مستحکم ہوتا چلا گیا ، حتیٰ کہ ہندستان میں انگریز کسی حد تک پرسکون طور پر حکومت کرنے لگے ۔
لیکن آزادی کی تڑپ قلب و اذہان میں زندہ تھی ، سو یہ عسکری جدوجہد سیاسی تگ و تاز میں بدل گئی جس کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ انگریزی حکومت میں رہتے ہوئے ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کیے جائیں ۔ ابتداء میں کانگرس کے مقاصد بھی محض نئے حاکموں کا اعتماد حاصل کرنا اور ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا تھا ، جو بعد میں آئینی طور پر شہری حقوق کے حصول میں بدل گئے اور جب انگریز پہلی جنگ عظیم میں الجھ کر کچھ کمزور ہوئے تو اہداف آزادی کی تحریک میں بدل گئے ۔۔
حتیٰ کہ دوسری جنگ عظیم میں باوجود فتح کے انگریزوں کی معاشی حالت کی خرابی اور عسکری کمزوری نے مکمل آزادی کی لگن مقامی سیاسی جماعتوں میں پیدا کر دی ۔۔۔یعنی یہ ان کو اب ممکن نظر آنے لگا ۔
مسلم لیگ کا قیام ابتدائی طور پر صرف اسی نظام میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا تحفظ تھا اور ابتدا میں کانگرس سے الگ کوئی سیاسی اہداف بھی نہ تھے اور اس کو چیلنج بھی نہیں کر رہے تھے لیکن جلد ہی وہ متحارب جماعت بن گئی ۔۔۔۔بدقسمتی سے تحریک پاکستان سے پہلے محض تحریک آزادی کو فوکس کیا جائے تو مسلم لیگ کا کوئی نمایاں کردار دکھائی نہیں دیتا ، یہی وجہ تھی کہ آزادی کی لگن اور تڑپ کے حاملین مذہبی رہنما لیگ سے دور ہی دور تھے ۔۔۔۔۔اور یہ ایسی تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی ہمارے پاکستان میں تحریک آزادی جیسا کوئی بھولا ہوا باب ہو جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
یہ چند لائنیں ہرگز اس تاریخ کا احاطہ نہیں کر سکتیں لیکن اختصار مطلوب ہے ۔۔۔۔
مسلم لیگ کی سیاست تو۔ انیس سو چھے میں شروع ہو گئی تھی ، لیکن اس کا فوکس بہت محدود تھا جس میں صرف مسلم حقوق کی بات تھی ہندوستان کی آزادی سے زیادہ اس کی سیاست کانگرس کا مقابلہ بن کر رہ گئی تھی ، جو بعد میں مطالبہ پاکستان کے بعد مزید ہی یک نکاتی ہو گئی ۔۔۔۔اب مسلم لیگ کا اول و آخر مقصد ہندوستان سے دو علاقوں کو الگ کر کے پاکستان بنانا تھا جبکہ اس کے مقابل کانگرس پورے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی ۔۔۔
یہاں درست نادرست کی بحث نہیں کر رہا صرف دونوں جماعتوں کی سوچ و فکر اور اہداف کا احاطہ کرنا مقصود ہے ۔
حقوق کی جنگ جب الگ وطن کے حصول میں بدل گئی تو بھی مذہبی افراد کی اکثریت متحدہ ہندوستان کی حامی تھی ، لیکن حالات جوں جوں کشیدہ ہو رہے تھے ، مسلم لیگ کی مقبولیت اور تعداد بڑھ رہی تھی ۔اور یہ تقسیم ، توڑ پھوڑ و آمد سارے مسالک میں تھی ۔
اب اہم ترین بات یاد رکھیئے کہ دونوں طرف کے لوگ اسلام ، ملک اور قوم کے ساتھ مخلص تھے اور انتہائی دیانتداری سے اپنے نظریات پر ڈٹے ہوئے تھے ، دوسرے لفظوں میں یہ ایک اجتہادی اختلاف تھا جس میں دونوں فریق اخلاص پر قائم تھے ۔
اس لیے کسی جماعت کے ساتھ رشتہ ہرگز باعثِ فخر نہیں ہے ۔ہاں جب کبھی ہندستان کی پچھلی نصف صدی سے جاری توڑ پھوڑ کا عمل ختم ہو جائے گا اور ٹوٹی کشتی پار لگے گی تو تاریخ کا طالب علم دو ٹوک فیصلہ کر سکے گا کہ کون سا فریق حق پر تھا اور کامیاب رہا ؟
ابھی تو سفر جاری ہے ، اور بحث کے نکات و دلائل موجود ۔۔۔۔ہاں میری نظر میں متحدہ قومیت والوں کے دلائل کا پلڑا بھاری ہے ۔
کل سے ہمارے اہل حدیث احباب میں بعض شخصیات کے حوالے سے بھی ایک بحث جاری ہے کہ کون کون سا بزرگ کس جماعت کا حامی تھا اور کون مخالف ۔
لمبا موضوع ہے ، لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی تو مسلم لیگ کے اتنے شدید حامی تھے کہ مولانا ابوالقاسم فاروقی لکھتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو جیسے مسلمان سمجھنے میں بھی مشکل کا شکار ہوتے تھے کہ مسلم لیگ میں شامل نہ ہوں ۔۔۔۔یہاں مبالغہ ان کے مزاج کی شدت کو ظاہر کرنے کے واسطے ہے ۔
جبکہ مولانا اسماعیل سلفی تو آخر دم تک کانگرسی سوچ یعنی متحدہ ہندوستان کے حامی تھے ۔
مولانا داؤد غزنوی البتہ پاکستان بننے سے قریب سال بھر پہلے مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ یہ حالات کا جبر تھا جس کی تفصیل کا محل نہیں ہے ۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری پہلے کانگریس کے حامی تھے اور ساتھ ہی ساتھ جمیتہ علمائے ہند کے نائب صدر تھے ، اور جمیعت علمائے ہند کا سیاسی موقف واضح ہے جس میں کوئی ابہام نہیں نہ قابلِ بحث ۔۔۔۔۔البتہ امرتسر میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے آل انڈیا اجلاس کی میزبانی اور صدارت بھی آپ نے کی تھی جو تقسیمِ وطن ہندوستان سے صرف سال بھر پہلے ہوا ، جبکہ انیس سو پینتالیس میں تو مولانا جمیت علمائے ہند کے نائب صدر تھے ۔۔۔۔یعنی یہ اکھاڑ پچھاڑ سب آخری سو برسوں میں ہوئی کہ جب تقسیم ہند ہونا صاف دکھائی دینے لگا اور سلامتی کا راستہ کچھ اور نظر نہ آ رہا تھا ۔
چلتے چلتے یاد آیا کہ مولانا کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا جو فسادات میں شہید ہوئے ، مولانا کا پریس لٹ گیا ، قیمتی لائبریری کو آگ لگا دی گئی ۔۔۔لٹے پٹے پاکستان آئے ، آ کر مسجد چینیاں والی میں قیام کیا ، مولانا میر سیالکوٹی ، مولانا داؤد غزنوی اور غالباً مولانا عطاء اللہ سب آپ کے گرد بیٹھے ان کے دکھ میں غم زدہ تھے۔ ۔۔۔۔۔محفل پر غم کے بادل تھے مولانا کی حالت کے سبب کسی کو بولنے کی ہمت نہ ہو رہی تھی ۔۔۔۔مولانا ہی بولے "ابراہیم یہ تھا تمہارا پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔”
یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اہل حدیث جماعت کے اس دور میں اور بھی بڑے بزرگ تھے جو اس وقت اساطین علم و فضل تھے اور ان کی اکثریت کو مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں تھا.
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر مسلک کی یہی کہانی ہے ۔۔۔۔۔اور جبر یہ ہے کہ ہندستان میں ہر گروہ کے حاملین اپنے اکابرین کو متحدہ ہندوستان کا حامی اور پاکستان میں تحریک پاکستان کا مرکزی کردار ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔ ۔۔
برادران ، یہ وہی حالات کا جبر ہے کہ جس کا سامنا ہمارے بزرگ ستر برس پہلے کر رہے تھے اور ہم آج بھی کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
البتہ برادرم فیصل افضل شیخ صاحب کے حوالے سے جو بحث جاری ہے اس میں ان سے تسامح ہوا ، اس مسلم لیگ کو موجودہ مسلم لیگ سے جوڑنا ہرگز درست نہیں ہے ۔بطور مثال اگر آج تحریک انصاف اپنا نام مسلم لیگ رکھ لے تو کیا اسے بھی جناح کی مسلم لیگ کا تسلسل سمجھا جائے گا ؟
یا مسلم لیگ کے اور بھی گروپ ہیں ، ان کو تو یہ حق دینا چاہیئے …
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہی وہ مسلم لیگ ختم ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔