یوم ولادت، نارائن وامن تِلک

پیدائش:06 دسمبر 1861ء
تاریخ وفات:09 مئی 1919ء
شہریت:برطانوی ہند
زوجہ:لکشمی بائی تلک
زبان:مراٹھی

نارائن وامن تِلک (06 دسمبر 1861 – 09 مئی 1919) برطانوی ہندوستان میں بمبئی پریزیڈنسی کے علاقے کوکن کے ایک مراٹھی شاعر تھے۔ وہ ہندو مت چھوڑ کر پروٹسٹنٹ مسیحیت قبول کرنے کے لیے مشہور ہیں۔
ناراین وامن تلک کی پیدائش بمبئی پریزیڈینسی کے رتناگری ضلع کے کرج گاؤں میں سنہ 1861ء کو ہوئی۔
1869ء-1873ء کے دوران میں انھوں نے ممبئی کے قریب کے قصبے کلیان سے تعلیم حاصل کی اور ناسک کے قصبے میں اگلے چار برسوںکے دوران میں سنسکرت ادب کا علم حاصل کیا۔ 1877 – 1889ء کے دوران میں انگریزی اور دوسرے مضامین سیکھنے کے بعد انھوں اپنا تعلیمی سلسلہ ختم کر دیا اور ایک ٹیچر کی نوکری کرنا شروع کر دی تاکہ خود اور اپنی بیوی منکرنیکا گھوکلے کو سہارا دے سکے۔ منکرنیکا گھوکلے سے انھوں نے سنہ 1880ء میں شادی کی تھی، شاید خاندان اور اس وقت کی سماجی رسم کے مطابق ہوئی تھی۔ شادی کے بعد منکرنیا کو لکشمی بائی کا نام دیا گیا۔ وہ کبھی اسکول نہیں گئی تھی؛ تاہم، ناراین وامن تلک کے زور دینے پر وہ مراٹھی پڑھنا اور لکھنا سیکھ گئی، منکرنیکا نے زبان پر مہارت حاصل کر لی اور بعد میں خود کی آپ بیتی ”سمرتی چترے“ بھی تحریر کی جو مراٹھی میں ایک شاہکار آپ بیتی ثابت ہوئی۔
ناراین وامن تلک نے اپنی زندگی میں کئی اتار چڑاؤ دیکھے اور انھوں نے اپنی زندگی میں مہاراشٹر کے مختلف قصبات میں مختلف اقسام کی نوکریاں کیں جن میں ٹیچر، پنڈت اور پرنٹنگ پریس کمپوزیٹر کی نوکری شامل ہے۔
سنہ 1891ء میں ان کو ناگپور میں سنسکرت ادب کے مترجم کے طور پر نوکری ملی (اسی سال انھوں نے سنسکرت میں خود ہی کچھ نظمیں لکھیں)۔ اپا صاحب بھوتی کی سرپرستی میں انھوں نے مراٹھی زبان کے جریدہ ”رشی“ (ऋषि) میں ایڈیٹنگ کی، اس جریدے میں ہندو مذہبی معاملات پر بات کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

سنہ 1893ء میں ملازمت کی تلاش کے لیے ناراین وامن تلک نے ٹرین کے ذریعے راج نان گاؤں کا سفر طے کیا۔ راج نان گاؤں پر اس زمانے میں ایک نوابی ریاست تھی جس کا حکمران ایک ہندو پنڈت تھا اور جو ہندوستان کے وسطی اضلاع میں واقع تھا۔ سفر کے دوران میں ان کی ملاقات ایک پروٹسٹنٹ مبلع فری میتھوڈسٹ چرچ کے ارنسٹ ورڈ سے ہوئی، جو جوش سے مسیحیت کی بات کرتا تھا۔ اس مبلغ نے بائبل کی ایک نقل انھیں پیش کی اور ان مشورہ دیا کہ ان کو دو برسوں میں مسیحی بن جانا چاہیے۔ ان کا ہندومت ترک کر کے مسیحیت قبول کرنے تک کا سفر درد ناک تھا۔ انھوں نے ایک مسیحی تبلیغی جریدے میں نامعلوم مصنف کے طور پر کام کیا اور اس بیچ انھوں نے کئی دفعہ سوتے ہوئے خواب دیکھے جس میں کوئی غیبی قوت ان کو مسیحیت قبول کرنے کا کہہ رہی تھی جس کے بعد انھوں نے بپتسمہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 10 فروری 1895ء کو ممبئی میں ان کو بپتسمہ دیا جس سے علم ان کے رشتے دار اور بیوی لاعلم تھے۔ اس کی بیوی لکشمی بائی کی آزمائش ایک قابل ذکر کہانی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے الگ ہو گئی تھی اور چار سالوں تک طویل کشمکش رہنے کے بعد دوبارہ اپنے شوہر سے مل گئی اور مسیحیت بھی قبول کر لی۔

اس کے فوری بعد سنہ 1094ء میں ناراین وامن تلک نے احمد نگر کی سیمینری (تربیت گاہ) میں پڑھانا شروع کیا اور کانگریگشنل چرچ میں ایک خادم دین کے طور پر ان کا نفاذ فرمان ہوا۔ وہ 1912ء میں مسیحی تبلیغی جریدے ”گیان ادے“ کے ایڈیٹر اور معاون بنے اور اپنی وفات تک اسی منصب فائز رہے۔ مسیحی ہونے کے تقریباً دس سالوں بعد انھوں نے مراٹھی زبان کے مہاوروں، خاص کر مہاراشٹر کے وارکری ہندو سمپردائے کے شاعرانہ انداز میں اپنے عقیدے کو بیان کرنا شروع کیا۔ ان کے بنائے کئی گانے مراٹھی بولنے والے مسیحیوں میں اب تک انتہائی مقبول ہیں۔ وہ روایتی مسیحیت کے نقاد تھے اور اپنی وفات سے دو سال قبل وہ چرچ کے قریب ہوگئے تاکہ یسوع کے بپتسمہ یافتہ اور غیر بپتسمہ یافتہ شاگردوں کو اکھٹا کر کے ایک جماعت بنا سکیں۔ ان کا یہ مقصد کامیاب نہ ہو سکا اور وہ 09 مئی 1919ء کو ممبئی میں وفات پا گئے۔
ناراین وامن تلک کے بیٹے دیو دت ناراین تلک رزمی نظم ”کرست یان“ کے مدیر اور ناشر تھے۔ ان کے پوتے اشوک دیو دت تلک ایک مؤرخ تھے جنھوں نے ”سمرتی چترے“ کی ایڈیٹنگ کی اور ناراین وامن تلک کے بارے میں ایک سوانحی ناول ”چلتا بولتا چمتکار“ لکھا۔

Comments are closed.