ایک سروے کے مطابق گزشتہ 10 برسوں کے دوران دنیا بھر میں خواتین میں غصہ بڑھا ہے اور وہ زیادہ تناؤ کی شکار ہوگئی ہیں۔
باغی ٹی وی: برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ انکشاف گیلپ کے ایک سروے کے 10 سالہ ڈیٹا کی بنیاد پر کیا گیا گیلپ کی جانب سے ہر سال دنیا بھر میں 150 سے زیادہ ممالک میں ایک لاکھ 20 ہزار افراد سے ان کی جذباتی حالت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔
آئی سی سی نے نئی ٹیسٹ رینکنگ جاری کر دی، بابر اعظم ایک درجہ ترقی کے بعد تیسرے نمبر پر آگئے
ہر سال سروے 150 سے زیادہ ممالک میں 120,000 سے زیادہ لوگوں سے یہ پوچھتا ہے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ، انہوں نے پچھلے دنوں کے لیے کیا جذبات محسوس کیے تھے۔
بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ 2012 کے بعد سے مردوں کی نسبت زیادہ خواتین اداسی اور پریشانی کے احساس کی اطلاع دیتی ہیں، حالانکہ دونوں جنسیں مسلسل اوپر کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
تاہم جب غصے اور تناؤ کی بات آتی ہے تو مردوں کے ساتھ خلیج بڑھ رہی ہے نو سال بعد خواتین زیادہ غصے میں ہیں – چھ فیصد پوائنٹس کے فرق سے – اور زیادہ تناؤ کا شکار بھی۔ اور وبائی مرض کے وقت کے آس پاس ایک خاص فرق تھا۔
فیفا ورلڈکپ میں مراکشی کھلاڑیوں نے فتح کے بعد فلسطین کا جھنڈا لہرا دیا
ڈیٹا کے مطابق جب منفی احساسات جیسے غصہ، اداسی، تناؤ اور فکرمندی کا جائزہ لیا جائے تو مردوں کے مقابلے میں خواتین کی جانب سے ان کا اظہار زیادہ کیا جاتا ہے 2012 سے خواتین کی جانب سے مردوں کے مقابلے میں اداسی اور فکرمندی کو زیادہ رپورٹ کیا جارہا ہے مگر یہ فرق بتدریج گھٹ رہا ہے۔
مگرجہاں تک غصے اور تناؤکی بات ہے تو 2012 میں مردوں اور خواتین میں یہ شرح لگ بھگ ایک جیسی تھی مگر ایک دہائی بعد خواتین زیادہ غصے اور تناؤ کو رپورٹ کررہی ہیں، خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا کے دوران یہ فرق مزید بڑھ گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیاکہ کچھ ممالک میں خواتین اور مردوں میں غصہ ظاہر کرنے کا فرق عالمی اوسط سے زیادہ ہے مثال کے طور پر 2021 میں کمبوڈیا میں 17 فیصد، جبکہ بھارت اور پاکستان میں 12 فیصد فرق ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق وبا کے باعث خواتین کی ملازمتوں پر مرتب اثرات سے بھی یہ فرق بڑھا 2020 سے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کا عمل سست روی سے جاری تھا مگر کورونا کی وبا کے دوران مکمل طور پر تھم گیا۔
واضح رہے کہ رپورٹ میں گیلپ کے 2012 سے 2021 کے سرویز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔