گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا
علی جواد زیدی کرہان اعظم گڑھ میں 10 مارچ 1916 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی کچھ بڑے ہوئے تو ریاست محمود آباد کے کالون اسکول میں داخلہ لیا۔ 1935 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ 1937 میں انٹر اور 1939 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔
یہ زمانہ وہ تھا جب آزادی کی جد وجہد تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی اور کمیونسٹ پارٹی نوجوانوں کے لئے خاص کشش رکھتی تھی۔ علی جواد زیدی بھی کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ممبر بن گئے اور آزادی کی جد وجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس جد وجہد میں شریک ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار بھی کیا گیا اور چھ مہینے کی سزا ہوئی۔
ملک کی تقسیم اور آزادی کے بعد وہ سرکاری ملازمت میں آگئے اور مرکزی حکومت میں ذمے دار عہدوں پر فائز رہے۔ جب اندر کمار گجرال کی سربراہی میں اردو زبان کی ترقی کے لئے حکومت نے ایک کمیشن بنایا تو گجرال نے علی جواد زیدی کو کمیشن کے انتظامی امور کی ذمے داری سونپی۔
علی جواد زیدی نے شاعری اور نثر دونوں صورتوں میں اہم ترین کارنامے انجام دئے۔ ان کی شاعری اور خاص کر نظمیں حب الوطنی اور قوم پرستانہ جذبات کی حامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ’تیشۂ آواز‘ اور ’رگ سنگ‘ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ علی جواد زیدی نے کئی اہم تنقیدی کتابیں بھی لکھیں۔ جنمیں ’ دو ادبی اسکول‘ ’قصیدہ نگاران اترپردیش‘ ’تاریخ اردو ادب کی تدوین‘ ’اردو میں قومی شاعری کے سو سال‘ اور دوسری کئی کتابیں شامل ہیں۔
علی جواد زیدی کو ان کی ادبی اور سماجی خدمات کے لئے 1988 میں پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 7 دسمبر 2004 کو انتقال ہوا۔
اشعار
جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا
وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے
یہ دشمنی ہے ساقی یا دوستی ہے ساقی
اوروں کو جام دینا مجھ کو دکھا دکھا کے
لذت درد ملی عشرت احساس ملی
کون کہتا ہے ہم اس بزم سے ناکام آئے
ہجر کی رات یہ ہر ڈوبتے تارے نے کہا
ہم نہ کہتے تھے نہ آئیں گے وہ آئے تو نہیں
ہم اہل دل نے معیار محبت بھی بدل ڈالے
جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں
مرے ہاتھ سلجھا ہی لیں گے کسی دن
ابھی زلف ہستی میں خم ہے تو کیا غم
اب درد میں وہ کیفیت درد نہیں ہے
آیا ہوں جو اس بزم گل افشاں سے گزر کے
گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا
دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں
یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم
نظارۂ جمال کی فرصت کہاں ملی
پہلی نظر نظر کی حدوں سے گزر گئی
ایک تمہاری یاد نے لاکھ دیے جلائے ہیں
آمد شب کے قبل بھی ختم سحر کے بعد بھی
مونس شب رفیق تنہائی
درد دل بھی کسی سے کم تو نہیں
جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں
وہ مجھ کو دیکھتے ہیں میری نظر بچا کے
دل کا لہو نگاہ سے ٹپکا ہے بارہا
ہم راہ غم میں ایسی بھی منزل سے آئے ہیں
غضب ہوا کہ ان آنکھوں میں اشک بھر آئے
نگاہ یاس سے کچھ اور کام لینا تھا
شوق منزل ہم سفر ہے جذبۂ دل راہبر
مجھ پہ خود بھی کھل نہیں پاتا کدھر جاتا ہوں میں
دیار سجدہ میں تقلید کا رواج بھی ہے
جہاں جھکی ہے جبیں ان کا نقش پا تو نہیں
مدتوں سے خلش جو تھی جیسے وہ کم سی ہو چلی
آج مرے سوال کا مل ہی گیا جواب کیا
دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے
پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے
ہار کے بھی نہیں مٹی دل سے خلش حیات کی
کتنے نظام مٹ گئے جشن ظفر کے بعد بھی
پی تو لوں آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو لیکن
دل پہ قابو بھی تو ہو ضبط کا یارا بھی تو ہو
ہیں وجود شے میں پنہاں ازل و ابد کے رشتے
یہاں کچھ نہیں دو روزہ کوئی شے نہیں ہے فانی
جب کبھی دیکھا ہے اے زیدیؔ نگاہ غور سے
ہر حقیقت میں ملے ہیں چند افسانے مجھے
آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا
آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے
اب نہ وہ شورش رفتار نہ وہ جوش جنوں
ہم کہاں پھنس گئے یاران سبک گام کے ساتھ