لاوڈ سپیکر اور سماعت کے مسائل — خطیب احمد
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ہر 5 میں سے ایک فرد سماعت کے مسائل کا شکار ہے۔
دنیا میں اس وقت 49 کروڑ سننے کے مسائل کا شکار ہیں۔ یہ تعداد 2050 تک 1.5 ارب ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ تعداد بڑھتی کیوں جا رہی ہے۔
جب پھول کی ایک ننھی کلی چٹخ کھلتی ہے۔ یا کسی شاعر کی محبوبہ بغیر آواز پیدا کیے مسکراتی ہے تو 5 ڈیسی بل کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ کلی کا چٹخنا اور کسی لڑکی کی بغیر آواز کی مسکراہٹ بھی سنی ج سکتی ہے۔ یہ آواز دنیا میں 0.5 فیصد لوگ سن سکتے ہیں۔
نارملی ہم 15 سے 20 ڈیسی بل کی ہلکی سے ہلکی آواز سن سکتے ہیں۔ ہماری نارمل گفتگو 50 سے 60 ڈیسی بل تک کی ہوتی ہے۔ 70 ڈیسی بل تک کی اونچی آواز سننا کان کے لیے محفوظ ہے۔ 70 ڈیسی بل کی آواز موبائل فون سے ہینڈز فری لگا کر 7 نمبر والیوم پر سنی جا سکتی ہے۔ جس کے بعد موبائل وارننگ دیتا ہے کہ آگے جائیں گے تو آپکی سماعت ڈیمج ہو سکتی ہے۔
90 ڈیسی بل پر آواز کے ساتھ تھرتھراہٹ شامل ہوجاتی ہے۔ 90 سے اوپر کی آواز جو فرد سن سکے اسے ڈیف کہتے ہیں۔ 100 ڈیسی بل کی آواز یعنی موبائل کا ہینڈز فری میں فل والیوم کرکے 30 منٹ تک سننے پر ہم اپنے کان کے اتنا نقصان پہنچا لیتے کہ جیسے آپکی ایک انگلی کا ایک پورا کاٹ دیا جائے۔
راک سٹار میوزک میں آوازیں 120 ڈیسی بل تک جا رہی ہوتی ہیں۔ مگر اس آواز میں ساؤنڈ اور تھرتھراہٹ مکس ہوتی ہے۔ ووفر لگے ہوتے ہیں۔ ماہر ڈی جے آوازوں کی فریکوئنسی ہر لمحے بڑھا گھٹا رہا ہوتا ہے۔ کہ کان کا پردہ نہ پھٹ جائے۔ صرف 20 منٹ تک 120 ڈیسی بل کی آواز کان میں ڈالی جائے تو کان کا پردہ ہی نہیں دماغ کو آواز کے سگنل دینے والی نسیں بھی پھٹ جائیں۔
اب ہو کیا رہا ہے؟ مساجد امام بارگاہوں کے اندر لگے ریگولر اسپیکرز اور دیگر مذہبی رسومات جیسے مجلس محفل جلسے میں یا شادی پر مہندی وغیرہ کی رسم پر ہم جو ساؤنڈ سسٹم استعمال کرتے ہیں۔ آپکو پتا ہے اسکی فریکوئنسی کتنی ہوتی ہے؟ کم سے کم 100 ڈیسی بل سے اوپر جو آواز مسلسل ہمارے کان ڈیمج کر رہی ہوتی۔
میں اس رمضان میں تراویح پڑھ رہا تھا۔ اسپیکر کی آواز 100 سے110 ڈیسی بل کی تھی۔ دوسری تروایح میں مجھے نماز توڑ کر سپیکر بند کرنا پڑا نہیں تو میرے کان کا پردہ پھٹ جاتا۔ لوگ اتنی اونچی آواز سے اوزار ہوتے ہیں مگر مذہبی آداب کی وجہ سے چپ بیٹھے رہتے۔ اور اوپر سے کئی مولوی صاحبان گلا پھاڑ پھاڑ کر آواز کی فریکوئنسی کو مزید بڑھا رہے ہوتے ہیں۔
میں نے اپنے امام صاحب کو گائیڈ کیا کہ آواز کم رکھیں کیوں سارے نمازیوں کو بہرہ کرنا ہے۔
مسجدوں کی چھتوں پر لگے یونٹ بھی بہت خطرناک ہیں۔ انکی جگہ آواز کی تھرو کی رینج بڑھانے والے سپیکرز انسٹال کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ اسپیکروں کی فریکوئنسی 120 سے 140 تک ہوتی ہے۔ مسجد کے قریب گھروں میں لوگوں کی سماعت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ابھی آپ میں سے کئی مجھ پر فتویٰ لگانے آجائیں گے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ اذان اور قرآن روح کو سکون تب دے سکتے ہیں جب انکی آواز متوازن ہو اور 70 سے 80 ڈیسی بل تک ہی ہو۔
محفل نعت، میلاد النبی کی محافل، مجالس عزا، جلسے، مہندی کے فنکشن میں خدارا اسپیکروں کی آواز کم رکھیں۔ ہینڈز فری کا والیوم کبھی بھی 7 سے اوپر نہ کریں۔ مساجد کی چھتوں پر لگے یونٹوں کو جدید ٹیکنالوجی سے تبدیل کریں۔ نماز اور جمعہ کی تقریر کے لیے مساجد میں استعمال ہونے والے ریگولر اسپیکرز کی آواز اگر کانوں کو سکون دینے کی بجائے بیزار کرتی ہے۔ تو قاری صاحب کو سمجھائیں کہ بلند آواز زیادہ اثر نہیں کرتی۔ اپنا مطالعہ وسیع کریں بات دلیل و منطق سے کریں دل بدل دے گی۔
ہمارے کانوں کے ساتھ جو ظلم مذہبی اجتماعات میں ہوتا نجی محفلوں میں ہوتا۔
مغرب میں یہ سب وہاں لوگوں کے ساتھ بار اور میوزیکل نائٹس میں ہوتا ہے۔
وقتی تھرل Thrill کانوں کا بیڑہ غرق کر رہی ہے۔ یہاں بھی وہاں بھی۔
ہمیں مساجد اور بڑے اجتماعات میں ڈیسی بل میٹرز لگانے کی ضرورت ہے کہ جس سے معلوم ہو سکے آواز محفوظ کی حد سے بڑھ تو نہیں رہی۔
ہینڈز فری کا استعمال خدا را کم سے کم کریں۔ اپنی سماعت کو بچائیں۔ کوئی بھی آلہ سماعت قدرتی سننے کی صلاحیت کا متبادل نہیں ہو سکتا۔